Accessibility links

Breaking News

اقوامِ متحدہ کی قرارداد کی منظوری سے فلسطینیوں کے لیے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اقوام متحدہ کی 193 رکنی جنرل اسمبلی نے ایک مبصر ریاست فلسطین کو ایک رکن ریاست کے نئے حقوق اور مراعات دینے کی قرارداد پر10 مئی کو ووٹ دیا۔

اسمبلی نے اس تجویز کے لیے بھی ووٹ دیا کہ سلامتی کونسل فلسطین کی اقوامِ متحدہ کی رکنیت کے لیے درخواست پر ایک اور نظر ڈالے۔ قرارداد منظور کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے طے کیا کہ فلسطین رکنیت کے لیے اہل ہے۔

قرارداد کو 143 ووٹوں سے منظور کیا گیا جو کہ منظوری کے لیے درکار 118 ووٹوں سے زیادہ تھے۔ امریکہ ان نو رکن ممالک میں سے ایک تھا جنہوں نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرارداد کی منظوری سے فلسطینیوں کے لیے کوئی واضح تبدیلی نہیں آئے گی۔

امریکہ کے خصوصی سیاسی امورکے لیے متبادل نمائندے رابرٹ ووڈ نے کہا کہ خطے میں پائیدار امن صرف دو ریاستی حل کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے جس میں اسرائیل کی سلامتی کی ضمانت دی گئی ہو اور جہاں اسرائیلی اور فلسطینی آزادی اور وقار کے مساوی اقدامات کے ساتھ شانہ بشانہ رہ سکتے ہوں۔

امریکہ کا مؤقف یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ اور یک طرفہ زمینی اقدامات اس مقصد کو آگے نہیں بڑھائیں گے۔

سفیر رابرٹ ووڈ کا کہنا ہے کہ ’’ہمارا ووٹ فلسطینی ریاست کی مخالفت کا اظہار نہیں۔ ہم واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ ہم اس کی حمایت کرتے ہیں اور اسے بامعنی طور پر آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ ایک اعتراف ہے کہ ریاست کا درجہ صرف اس عمل کے ذریعے ممکن ہو گا جس میں فریقین براہ راست مذاکرات میں شامل ہوں۔

سفیر ووڈ نے کہا کہ ’’اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں جو اسرائیل کی سلامتی اور ایک جمہوری یہودی ریاست کے مستقبل کی ضمانت دیتا ہو۔ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے جو اس بات کی ضمانت دیتا ہو کہ فلسطینی اپنی ریاست میں امن اور وقار کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ کوئی ایسا راستہ نہیں ہے جو اسرائیل اور اس کے تمام عرب پڑوسیوں کے درمیان علاقائی یک جہتی کی طرف لے جائے۔

رابرٹ ووڈ کا کہنا ہے کہ ’’امریکہ فلسطینیوں اورباقی خطے کے ساتھ اپنی رابطہ کاری کو تیز کرنے کے لیے پرعزم ہے تاکہ ایک ایسے سیاسی تصفیے کو فروغ دیا جائے جو فلسطینی ریاست کی حیثیت اور بعد میں اس کے لیے اقوامِ متحدہ میں رکنیت کا راستہ بنائے گا۔

سفیر ووڈ نے کہا کہ ’’امریکہ ایسے اقدامات کی مخالفت جاری رکھے گا جو دو ریاستی حل کے امکانات کو کمزور کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم سمجھتے ہیں کہ دو ریاستی حل خطے میں پائیدار امن کے حصول اور اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی سلامتی کے ساتھ آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ ہے۔

یہ امریکہ کا نکتہ نظر ہے کہ فلسطینی عوام کے لیے ریاستی حیثیت اور اقوامِ متحدہ کی رکنیت کے حصول کا سب سے مؤثر طریقہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان براہ راست مذاکرات ہیں جن کے لیے امریکہ اور دیگر شراکت داروں کی حمایت شامل ہو۔

یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔

XS
SM
MD
LG