برما کی فوجی حکومت جس نے یکم فروری 2021 کو ایک بغاوت میں اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا، ملک میں جمہوری طور پر منتخب لیڈروں اور جمہوری اداروں کے خلاف مزید کارروائیاں شروع کردیں اور برما کے عوام پر ظالمانہ جبرو استبداد میں اضافہ کردیا ہے۔
چھ دسمبر کو ایک عدالت میں سابق اسٹیٹ کونسلر آنگ سان سوچی اور صدر ون مینت کو مبینہ طور پر عوام میں بے چینی کو ہوا دینےاور کوویڈ نائنٹین کے ضابطوں کی خلاف ورزی پر چار برس کی جیل کی سزا سنا دی ہے۔
اگرچہ فوجی حکومت نے ان سزاؤں میں دو سال کی کمی کردی، آنگ سان سوچی اور جمہوری طور پر منتخب دوسرے سابق عہدیداروں کو اب بھی متعدد من گھڑت الزامات کا سامنا ہے جن کی بنا پر انہیں عشروں جیل میں گزارنے پڑسکتے ہیں۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے آنگ سان سوچی کی سزا اور جمہوری طور پر دوسرے متنخب عہدیداروں کے خلاف جبرو استبداد کو برما میں جمہوریت اور انصاف کے خلاف مزید زیادتی قرار دیا۔ برما کی حکومت کی جانب سے قانون کی حکمرانی سے جاری پہلو تہی اور برما کے لوگوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد کا استعمال اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ برما میں جمہوریت کو فوری طور پر بحال کیا جائے۔
برما کی عدالت کے فیصلے کی بین الااقوامی برادری کے بہت سے ملکوں نے مذمت کی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسے بیہودہ اور بدعنوانی پر مبنی قراردیا۔ ہیومن رائٹس واچ نے اسے بے بنیاد کہا۔
انسانی حقوق کے لیے اقوامِ متحدہ کی ہائی کمشنر مشیل بیچلیٹ نے کہا کہ فوجی کنٹرول والی عدالت کے سامنے جعلی اور خفیہ سماعت کے بعد اسٹیٹ کونسلر کی سزا اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ اس کے محرکات سیاسی ہیں۔
خارجہ امور اور سیکیورٹی پالیسی کے لیے یورپی یونین کے اعلی نمائندے جوزف بورل نے واضح طور پر کہا کہ سزا قانون کی حکمرانی اور میانمار میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی جانب ایک اور قدم ہے۔
یکم فروری کی فوجی بغاوت کے بعد سے حکومت نے لگاتار اور پر تشدد طور پر برما کے لوگوں کےحقوق پامال کیے ہیں۔
سیکیورٹی فورسز نے پرامن مظاہرین کے خلاف مہلک طاقت کا استعمال کیا ہے۔ حکومت 1300 سے زیادہ لوگوں کی ہلاکت کی ذمہ دار ہے اور اس نے 10 ہزار سے زیادہ لوگوں کو قید کررکھا ہے۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے حکومت پر زور دیا کہ آنگ سان سوچی اور برما میں غیر منصفانہ طور پر حراست میں لیے گئے تمام لوگوں کو رہا کر دے۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ ہم حکومت سے اس مطالبے کا اعادہ کرتے ہیں کہ تمام فریقوں سے تعمیری مذاکرات میں شریک ہوں تاکہ لوگوں کے مفاد میں ایک پرامن حل تلاش کیا جا سکے جیسا کہ آسیان کے اتفاقِ رائے سے منظور کیے جانے والے پانچ نکاتی معاہدے میں کہا گیا ہے۔ ہم آزادی اور جمہوریت کی خاطر برما کے عوام کی امنگوں میں شریک ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تشدد کا استعمال بند کر دے، لوگوں کی خواہشات کا احترام کرے اور برما کے جمہوری سفر کو بحال کر دے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**