بیلا روس، روس کے قریب ترین اتحادیوں میں سے ایک ہے۔ وہاں گزشتہ 28 برسوں سے الیگزینڈر لوکاشینکو کی آمرانہ حکومت قائم ہے اور اس آمرانہ حکومت کا اپنا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے روس پربہت زیادہ انحصار ہے۔
روس کئی عشروں سے بیلاروس کی معیشت کو مراعات دیتا چلا آ رہا ہے جس میں انتہائی کم سود پر قرضے اور گیس و تیل کی سستے داموں ترسیل شامل ہے۔ بین الاقوامی برادری نے لوکا شینکا حکومت پر جو پابندیاں لگائی ہیں، ان کا اثر زائل کرنے کے لیے روس نے ایک مرتبہ پھر مالی امداد فراہم کی ہے۔
بیلا روس یوکرین پر پوٹن کے حملے میں مکمل شریک رہا ہے۔ اس نے یوکرین کے شمال سے حملے کے لیے روسی فوج کو میدان فراہم کیا اور دیگر سہولتیں دیں۔ جنگ شروع ہونے کے تھوڑے عرصے بعد بیلا روس میں آئینی ترامیم کے بارے میں ایک جعلی ریفرنڈم ہوا جس میں آئین سے بیلا روس کے غیر جانب دار رہنے اور ایٹمی ہتھیا روں سے پاک رہنے والی شقیں ہٹا دی گئیں اور چند ایسی ترامیم کی گئیں جن کا مقصد لوکاشینکو کی گرفت اپنی آمرانہ حکومت پر اور مضبوط کرنا تھا۔ لوکاشینکو نے یہ تجویز بھی دی کہ روس کے ایٹمی ہتھیار بیلا روس میں رکھے جا سکتے ہیں۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ "(بیلا روس) اور صدر لوکاشینکو نے پوٹن کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ بیلا روس کی آزادی اور اس کی خود دعویٰ کردہ خود مختاری کومضحکہ خیز بنا دیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کچھ عرصے سے ہور رہا ہے کہ جب سے روس کی فوجیں بیلا روس میں داخل ہوئی ہیں، بیلا روس کے اندر جمع کی گئی ہیں، اس کے بعد خود مختار بیلا روس کے علاقے کو ایک تیسرے ملک پر پہلے سے طے شدہ، بلا جواز اور بلا اشتعال حملے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
یوکرین کے خلاف ماسکو کی جارحیت کی حمایت اور مدد کرنے کا لوکاشینکو کا فیصلہ ملک کے عوامی جذبات کا عکاس نہیں ہے۔ لندن میں قائم آزاد پالیسی انسٹی ٹیوٹ چیتھم ہاؤس کا کہنا ہے کہ بیلا روس کے 79 فی صد عوام کا خیال ہے کہ بیلا روس کےفوجیوں کو یوکرین کے خلاف پوٹن کی جنگ میں شامل ہو کر اپنی جان نہیں دینی چاہیے۔ آدھے سے زیادہ بیلا روسی عوام ملک کو غیر جانبدار دیکھنا چاہتے ہیں۔
محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ بیلا روس رفتہ رفتہ روس کا تابعدار بنتا جا رہا ہے اور لوکاشینکو کی اس آمادگی کو عیاں کر رہا ہے کہ وہ اپنے عوام کے مفادات کے خلاف عمل کر سکتے ہیں، تاکہ ماسکو کی حمایت حاصل رہے اور وہ اقتدار پر قابض رہیں۔
نیڈ پرائس نے کہا کہ بیلا روس کی جانب سے یوکرین میں روس کے اقدامات کی حمایت اور بڑھ چڑھ کر اس کی مدد کو دیکھتے ہوئے ہم بیلاروس پر بھی پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔ ہم نے بیلاروس کے تقریباً دو درجن سے زیادہ افراد اور اداروں پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان پابندیوں کا نشانہ بیلا روس کے دفاع اور اس سے متعلق مواد اور مالیاتی شعبہ ہیں، یہ دو شعبے وہ ہیں جن کا روس سے قریبی تعلق ہے
محکمۂ خارجہ کے ترجمان پرائس نے مزید کہا کہ ہم نے دیکھا کہ ہر موقعے پر صدر لوکاشینکو نے اپنے عوام کی خواہشات کو ایک طرف رکھتے ہوئے پوٹن اور یوکرین کے خلاف ان کےعسکری مقاصد کا ساتھ دیا ہے۔ اگر یہ اسی طرح جاری رہا تو بیلا روس کو جواب دہ ٹھہرانےکے سخت اقدامات کا مسلسل سامنا کرنا ہوگا۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**