اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ میں 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو ’’بڑے پیمانے پر موت اور تباہی کے نہ ختم ہونے والے ڈراؤنے خواب کا سامنا ہے۔
وہ خوف، پیاس، بھوک، غیر انسانی صورتِ حال اور بیماری کا شکار ہیں جس میں پولیو بھی شامل ہے۔
اقوامِ متحدہ میں خصوصی سیاسی امور کے امریکی متبادل نمائندے رابرٹ ووڈ نے کہا کہ ’’غزہ میں ویکسین سے اخذ کردہ پولیو وائرس کی تصدیق تشویش ناک ہے اور یہ غزہ کی آبادی کے لیے صحت کے اہم اور بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لیے فوری اقدام کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔
رابرٹ ووڈ نے کہا کہ ’’لڑائی نے غزہ میں صحت کے نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اور عالمی برادری کی جانب سے وبا کے ردِعمل کی صلاحیت کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔
اس کی وجہ سے کچرے کے انتظام کے نظام اور بنیادی ڈھانچے کی ناکامی بھی ہوئی ہے جو فلسطینیوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیےدرکار ہے۔
دریں اثنا، ناقص غذائیت اور معمول کے حفاظتی ٹیکوں کی فراہمی میں رکاوٹ نے آبادی کے لیے صحت کے خطرات کو نمایاں طور پر بڑھا دیا ہے اور متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ سے لڑنے کی ان کی صلاحیت کو مزید کمزور کر دیا ہے۔
سفیر ووڈ نے کہا کہ ’’یہ اور دیگر انسانی چیلنجز جنگ بندی کے معاہدے کے مکمل نہ ہونے پر ہی شدت اختیار کرجائیں گے۔‘‘
درحقیقت جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کا معاہدہ غزہ کی صورتِ حال کو بہتر کرنے کا واحد راستہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی صدر بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ اپنی ملاقات میں اس ضرورت پر زور دیا کہ دونوں متحارب فریقوں کے درمیان اختلاف کو ختم کیا جائے اور جلد از جلد معاہدے کو حتمی شکل دی جائے۔
سفیر ووڈ کہتے ہیں کہ ’’صدر بائیڈن نے غزہ میں انسانی بحران کے معاملے پر بھی بات کی۔
ان کا کہنا ہے کہ جنگ بندی ہمیں یہ صلاحیت دے گی کہ ہم انسانی امداداور بجلی اور صفائی ستھرائی جیسی بنیادی خدمات کو بحال کرنا شروع کریں اور فلسطینی شہریوں کو گھر واپسی کے قابل بنائیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ جنگ بندی صحت کے کارکنوں کے لیے ایک محفوظ اور زیادہ سازگار ماحول بھی پیدا کرے گی تاکہ وہ حفاظتی ٹیکوں کی ضروری مہم چلانے اور صحت کے لئے درکار ضروریات کی فراہمی کر سکیں۔
سفیر ووڈ نے کہا کہ ’’اگرچہ ہم تمام فریقوں پر زندگی بچانے کے کاموں میں سہولت فراہم کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں، تاہم ہمیں اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ حماس کی کارروائیاں کس طرح شہریوں کو خطرے میں ڈال رہی ہیں جن میں انسانی ہمدردی کے عملے اور ان کے خاندان بھی شامل ہیں۔
سفیر رابرٹ ووڈ کہتے ہیں کہ ’’حماس کل غزہ میں مصائب کا خاتمہ شروع کر سکتی ہے اگر وہ فوری طور پر بغیر کسی تاخیر یا مزید شرائط کے جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کر لیتی ہے اور اسے نافذ کرنے پر راضی ہو جاتی ہے۔
سفیر ووڈ کہتے ہیں کہ ’’ہم مذاکرات کرتے ہوئے موجود اختلافی خلا کو ختم کرنے بڑے پیمانے پر پائیدار انسانی رسائی کو بہتر بنانے اور دو ریاستی حل کے لیے کام جاری رکھنے کے بارے میں پرعزم ہیں جہاں اسرائیلی اور فلسطینی یکساں طور پر امن اور وقار کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔