نئی ٹیکنالوجیز کےحصول کے لیے اہم معدنیات ضروری ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں ان (نئی ٹیکنالوجیز) کی ضرورت ہو گی۔
یہ بات امریکہ کے اقتصادی ترقی، توانائی اور ماحولیات کے انڈر سیکریٹری ہوزے فرنانڈیز نے کہی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر ایک الگ خطاب میں انڈر سیکریٹری فرنانڈیز نے توجہ دلائی کہ لیتھیم، گریفائٹ اور میگنیشیم جیسی معدنیات کی ضرورت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’’صرف ایک مثال سے صورتِ حال کو واضح کرتے ہیں کہ آج ہم لیتھیم کی جو مقدار استعمال کرتے ہیں 2050 میں اس مقدار سے 42 گنا زیادہ کی ضرورت ہو گی۔
انڈر سیکریٹری فرنانڈیز نے کہا کہ اس طرح کی ضرورت کے پیشِ نظر ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ شفاف، محفوظ اور پائیدار سپلائی چین تیار کی جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’ابھی ان مواد کی فراہمی بنیادی طور پر ایک یا دو ممالک کے زیر کنٹرول ہے۔ ہمیں اس میں تنوع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ (سوال ہے کہ ) ایسا کیوں؟ (وجہ یہ ہے کہ ) ہم نے کووڈ کی وبا کے دوران سیکھا کہ جب سپلائی چینز کے لیے ہم ایک یا دو ممالک پر توجہ مرکوز کرتے ہیں تو یہ ایک خطرے کی بات ہے۔
تیسرا چیلنج از خود کان کنی ہے۔
اکثر اوقات ان کمیونٹیز کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے جن کے ارد گرد کان کنی کی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ ہمیں ایسے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہے جن کے نتیجے میں ان کمیونٹیز اور ممالک کو بھی ان سرگرمیوں سے فائدہ ہو۔
ہم ممالک کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ ہم شراکت دار ہیں اور یہ صرف معدنیات کو (زمیں سے ) نکالنا ہی نہیں ہے۔ کیوں؟ کیوں کہ اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور اس سے نوجوانوں کے لیے ایسے مواقع سامنے آتے ہیں کہ وہ اپنے ہی ملکوں میں اپنا مستقبل محفوظ بنا سکیں۔
انڈر سیکریٹری فرنانڈیز نے کہا کہ امریکہ معدنیات کے حوالے سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مدد دے رہا ہے اور ایسا معدنیات کی سیکیورٹی پارٹنرشپ یا ایم ایس پی کے ذریعےکیا جاتا ہے۔
تیرہ ممالک، یورپی یونین اور ایم ایس پی پر مشتمل یہ گروپ سرکاری اور نجی شعبوں میں شراکت داروں کے ساتھ کام کرتا ہے۔ تاکہ سرمایہ کاری، مالی امداد کے ساتھ ذمہ دارانہ کان کنی، پروسیسنگ اور ری سائیکلنگ کے مواقع پیدا کیے جا سکیں۔
انڈر سیکریٹری فرنانڈیز نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایم پی ایس کے اصول واضح ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس بات کو یقینی بنانے جا رہے ہیں کہ ہماری کمپنیاں اعلیٰ ترین ماحولیاتی اصولوں اور گورننس کے قواعدو ضوابط پر عمل پیرا ہوں۔
اس سے مراد کوئی بدعنوانی نہیں ہے اور ہم کمیونٹیز کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ کمیونٹیز کو اس قسم کے منصوبوں سے فائدہ اٹھانا ہوگا ورنہ وہ ان کی مخالفت کریں گے اور منصوبوں میں پیش رفت نہیں ہو پائے گی۔
انڈر سیکریٹری فرنانڈیز نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے وجودی چیلنج سے لڑنے کے لیے ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ممالک کو ماحولیاتی انحطاط اور اقتصادی ترقی میں سے ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ یہ (الگ الگ) دو مقاصد ہیں جو ہم ایک ساتھ حاصل کر سکتے ہیں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**