اقوامِ متحدہ کے مطابق 2017 میں چینی صوبے سنکیانگ میں مذہب یا عقیدے، نقل و حرکت، تنظیم سازی اور اظہارِ رائے کی آزادیوں پر سخت پابندیوں کی خبریں سامنے آئیں۔
ان خبروں کی تصدیق بعد میں خود نشانہ بننے والوں اوران کے اہلِ خانہ کے علاوہ متعدد آزاد ذرائع سے بھی ہوئی۔ انسانی حقوق کے لیے اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر کے دفتر نے اس بارے میں خود چھان بین کی اور اگست کے اواخر میں ایک رپورٹ جاری کی۔
رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ایغور اور مسلم اکثریت والے گروپوں کے ارکان کی ماورائے عدالت اور بلا جواز حراستیں اس حد تک پہنچ چکی ہیں کہ یہ بین الاقوامی جرائم خصوصاً انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آسکتی ہیں۔
رپورٹ میں باور کروایا گیا کہ سنکیانگ میں ووئی، نسلی قزاقوں، کرغز اور تاجک افراد جیسے دیگر مسلم اکثریت والے گروپوں پر بلا ضرورت اور سخت پابندیاں عائد کر کے انسانی حقوق کی سخت خلاف ورزیاں کی گئیں۔
26 اکتوبر میں اقوامِ متحدہ کی ایک ذیلی تقریب میں سنکیانگ میں ان اقلیتی گروپوں کے انسانی حقوق کی صورتِ حال پر گفتگو کی گئی۔
اقوامِ متحدہ میں امریکی نمائندہ، لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ "اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمشنر کے دفتر کی اس رپورٹ میں جس کا عرصے سے انتظار تھا، عوامی جمہوریہ چین میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی خوفناک تفصیل بیان کی گئی ہے۔"
سفیر گرین فیلڈ نے کہا کہ " جبری اعترافِ جرم بے بنیاد الزامات پر سخت سزائیں، نسلی ، مذہبی، ثقافتی شناخت اور اظہارِ رائے کی بنیادوں پر متعصبانہ حراستیں، ظالمانہ، غیر انسانی، توہین آمیز سزائیں، یہ اور دیگر انکشافات شک کی کوئی گنجائش پیدا نہیں کرتے۔ "
انہوں نے مزید کہا کہ" عوامی جمہوریہ چین نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔ ان کے اقدامات بلا شبہ انسانیت کے خلاف جرائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم اس کے ردِ عمل میں کیا کریں گے؟
اکتیس اکتوبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پچاس ممالک نے ایک مشترکہ بیان پر دستخط کیے جس میں عوامی جمہوریہ چین میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر خصوصاً سنکیانگ میں ایغوروں اور دیگر مسلم اقلیتی گروپوں کے حقوق کی جاری خلاف ورزیوں پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا اور چین پر زور دیا گیا کہ وہ بلا جواز حراست میں لیے گئے لوگوں کو فوری رہا کرے اور لاپتہ افراد کی حالت اور موجودگی فوری واضح کرے۔
کوئی بھی ملک اپنے ہی شہریوں کے خلاف ناروا سلوک کی چھان بین سے مبرا نہیں ہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**