شام میں اسد حکومت کو کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن یا سی ڈبلیو سی پر دستخط کیے ہوئے 10 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس نے نہ صرف کیمیائی ہتھیاروں کو کبھی استعمال نہ کرنے کا وعدہ کیا بلکہ سی ڈبلیو سی معاہدے کے تحت ان کو ترقی دینے، ان کی پیداوار، ذخیرہ اندوزی اور منتقلی کے خلاف عائد پابندی سے اتفاق کیا ہے۔ اس ایک دہائی کے دوران کنونشن کا نفاذ کرنے والے ادارے کیمیائی ہتھیاروں کی ممانعت کی تنظیم یا او پی سی ڈبلیو کے ساتھ حکومت کا تعاون داغدار اور غیر موجود ہی رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک حالیہ بریفنگ میں تخفیف اسلحہ کے امور سے متعلق اعلیٰ نمائندے کے ڈائریکٹر اور نائب ایڈیجی ایبو نے اعلان کیا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کے بارے میں دمشق کے اعلان کو درست اور مکمل نہیں سمجھا جا سکتا کیوں کہ اس میں تضادات اور نقائص موجود ہیں۔
اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے متبادل نمائندے رابرٹ ووڈ نے نشاندہی کی کہ امریکہ نے ایک دہائی سے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر اسد حکومت کی طرف سے کنونشن کی بار بار خلاف ورزیوں کی مذمت کی ہے جن میں متعدد بار آزادانہ طور پر شامی عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال، اپنے کیمیائی ہتھیاروں کی مکمل تفصیل کی فراہمی اور انھیں تلف کرنے میں ناکامی جیسی مثالیں شامل ہیں۔
سفیر ووڈ نے شام کے بارے میں او پی سی ڈبلیو کی حالیہ رپورٹس کو ’’خطرناک‘‘ اور ’’تشویشناک‘‘ قرار دیا۔
وہ کہتے ہیں کہ جیسا کہ ان او پی سی ڈبلیو رپورٹس میں بہتر انداز میں دستاویز ی طور پر شامل کیا گیا ہے کہ شامی حکومت او پی سی ڈبلیو اور اس کی مختلف تیکنیکی ٹیموں کے کام میں ابہام اور رکاوٹ پیدا کر رہی ہے جو اپنے اختیار کے تحت شام کے ساتھ مکمل طور پر رابطہ کاری چاہتے ہیں۔ او پی سی ڈبلیو ڈیکلریشن اسسمنٹ ٹیم کے حالیہ نتائج نے ہماری اس تشویش میں اضافہ کیا ہے کہ شامی حکومت کیمیائی ہتھیاروں کی بقایا صلاحیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
سفیر ووڈ نے توجہ دلائی کہ او پی سی ڈبلیو کے ڈائریکٹر جنرل فرنینڈو ایریاس کی رپورٹ سامنے آئی ہے۔ اس سے پہلے ریاستوں کی او پی سی ڈبلیو کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ریاستوں کو شام کے لیے دہرے استعمال والے کیمیکلز اور آلات کی منتقلی روکنے کے لیے کچھ ’’اجتماعی اقدامات‘‘ کی سفارش کی گئی۔
سفیر رابرٹ ووڈ کہتے ہیں کہ ’’ریاستوں کو ایسی اشیا کو اسد حکومت اور غیر ریاستی عناصر کے ہاتھ میں جانے سے روکنے کے لیے کارروائی کرنی چاہیے۔ ان میں خاص طور پر دہشت گرد گروہ بھی شامل ہیں۔
سفیر ووڈ نے اعلان کیا کہ ’’سی ڈبلیو سی اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر شام کی جانب سے مسلسل عدم تعمیل سے شامیوں اور عالمی برادری کو لاحق خطرہ تشویشناک ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم اس کونسل کے ساتھ مل کر دیگر کثیر جہتی فورمز پر اور شراکت دار ممالک کو شامل کرتے ہوئے اس خطرے سے نمٹنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں کہ اسد حکومت کبھی بھی شام کے لوگوں کو کیمیائی ہتھیاروں سے دہشت زدہ نہ کرے۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔