اقوام متحدہ کی دہشت گردی کے بارے میں ایک نئی رپورٹ کے مطابق متعدد خطوں میں داعش کی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت بہت کم ہو گئی ہے۔ تاہم اس دہشت گروپ کے دوبارہ ابھرنے کا بڑا خطرہ موجود ہے۔ اور یہ بات خاص طور سے ویسٹ افریقہ اور ساحل کے علاقوں کے لیے درست ہے جہاں آئی ایس آئی ایل گروپس بڑھ رہے ہیں اور زیادہ خود مختاری کے ساتھ کارروائیاں کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اگر یہ رجحان برقرار رہا تو پھر مالی سے نائیجیریا کی سرحدوں تک مغربی ساحل کا علاقہ غیر مستحکم ہو سکتا ہے۔
اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے متبادل نمائندے رابرٹ ووڈ نے کہا کہ امریکہ خاص طور پر پورے افریقہ میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے پر بدستور توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے جس کے بارے میں سیکریٹری جنرل کی رپورٹ میں بھی بتایا گیا ہے۔
سفیر رابرٹ ووڈ کہتے ہیں کہ ’’ہم ویسٹ افریقہ اور ساحل میں ہونے والی پیش رفت پر ان کی تشویش میں شریک ہیں جہاں صورتِ حال بگڑتی جارہی ہے اور زیادہ عدم استحکام کے امکان کے ساتھ زیادہ پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم اپنے افریقی شراکت داروں کو آئی ایس آئی ایل اور اور القاعدہ سے وابستہ عوامل کی کارروائیوں میں خلل ڈالنے اوران کی شدت کم کرنے کے لیے اہم نوعیت کی مدد فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے جو بین الاقوامی قانون کے مطابق ہو۔
سفیر ووڈ نے کہا کہ تاہم ہم عراق اور شام کی صورتِ حال کے بارے میں بھی تشویش رکھتے ہیں، جہاں ایک بین الاقومی اتحاد مقامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے کام کر رہا ہے۔
ان کے الفاظ ہیں کہ ’’اتحادی افواج پر حملے آئی ایس آئی ایس کو دوبارہ منظم ہونے سے روکنے کی بین الاقوامی برادری کی صلاحیت کو براہ راست نقصان پہنچاتے ہیں۔ امریکی افواج پر ایران سے منسلک ملیشیا گروپوں کے 170 سے زیادہ حملے بھی شا مل ہیں۔
سفیر ووڈ نے کہا کہ اس بات پر توجہ دی جانی چاہیے کہ شمال مشرقی شام کے کیمپوں میں زیرِ حراست تیسرے ملک کے شہریوں، آئی ایس آئی ایل کے جنگجوؤں اور بے گھر افراد کی ان کے ملکوں کو واپسی اس بحران کا سب سے پائیدار حل ہے۔
یہ خطے میں آئی ایس آئی ایس کو دوبارہ سر اٹھانے سے روکنے کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا ہم نے گزشتہ چھ ماہ کے دوران ان لوگوں کی وطن واپسی میں اضافہ دیکھا ہے خاص طور سے عراق کی حکومت کی جانب سے اور امید ہے کہ یہ مزید لوگوں کو واپس بھیجنے کی علامت ہے۔
اور آخر میں یہ کہ تصادم سے متعلق جنسی تشدد سے نمٹنا بھی امریکہ کی ایک اور ترجیح ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم پرتشدد انتہا پسندی کو روکنے کے لیے اقوامِ متحدہ کے اداروں کی مؤثر حکمت عملیاں وضع کرنے کا خیر مقدم کرتے ہیں جن میں سیاق و سباق کے حوالے سے مخصوص صنفی نقطہ نظر کو شامل کیا گیا ہے۔
جیسا کہ سیکریٹری جنرل کی رپورٹ میں نوٹ کیا گیا ہے۔ آئی ایس آئی ایس کی طرف سے پیدا کردہ خطرے سےاس وقت تک مؤثر طور پر نہیں نمٹا جا سکتا جب تک خواتین اور پسماندہ گروپوں کی آوازوں کو بلند نہیں کیا جاتا جو پر تشدد انتہا پسندی سے لڑنے کے عمل کا ایک حصہ ہے۔
سفیر ووڈ نے کہا کہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے ایسی کوششوں کی ضرورت ہے جو سیکیورٹی پر مرتکز طریقوں سے بڑھ کر ہوں۔ بین الاقوامی برادری کو پورے معاشرے کے اندازِ فکر میں سرمایہ کاری جاری رکھنی چاہیے جن کے تحت آئی ایس آئی ایس کا مؤثر طور مقابلہ کرنے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حقوق انسانی اور قانون کی حکمرانی کا احترام ہوتا ہے۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔