اقوامِ متحدہ کی جانب سے دنیا کے ملکوں کے لیے پائیدار ترقی کے جو 17 اہداف 2015 میں طے کیے گئے تھے اور جنہیں 2030 تک پورا ہونا تھا ان میں ایک صنفی مساوات بھی تھا۔
ابھی اس میں چھ سال سے کچھ زیادہ وقت باقی ہے مگر اس میں پیش رفت سست ہے۔ آج خواتین صرف 28 ممالک کی سربراہی کر رہی ہیں اور پارلیمنٹ کی نمائندگی میں چار میں سے ایک خاتون ہوتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی خواتین کے مطابق اس رفتار سے دنیا مزید 130 سالوں میں صنفی مساوات تک پہنچ پائے گی۔
اقوامِ متحدہ کی اقتصادی اور سماجی کونسل میں امریکہ کی مستقل نمائندہ لیزا کارٹی نے کہا کہ "اقتدار اور قیادت میں صنفی فرق اب بھی قائم ہے۔ صنفی بنیاد پر تشدد – بشمول ٹیکنالوجی کی سہولت کے ذریعے– بڑھ رہا ہے۔ اور امتیازی سلوک اب بھی عام ہے۔
وہ لوگ جو خواتین اور لڑکیوں کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں وہ تمام لوگوں خصوصاً کمزور طبقوں کی خوشحالی اور سلامتی کو بھی کم کر دیتے ہیں۔
وہ جمہوری طرز زندگی کی مکمل صلاحیت کو ختم کر دیتے ہیں۔ وہ پائیدار ترقی کے اہداف اور 2030 کے ایجنڈے کے حصول کو کمزور کرتے ہیں۔ اور وہ آمریت کی مضبوط گرفت کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
سفیر کارٹی نے کہا کہ "دوسری طرف، وہ لوگ جو خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، وہ صنف سے قطع نظر تمام افراد کے لیے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے فروغ اور تحفظ کے لیے جگہ بناتے ہیں۔
جب ہم اپنے معاشروں، اپنے ملکوں اور اپنی دنیا میں خواتین اور لڑکیوں کی ترقی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، تو ہم عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ سلوک اور تمام لوگوں کی بھلائی کے درمیان ایک واضح تعلق دیکھتے ہیں۔
ثبوت واضح ہے جب خواتین اور لڑکیوں کے ان کے انسانی حقوق سے مکمل مستفید ہونے سے انکار کیا جاتا ہے تو پورے معاشرے کو نقصان پہنچتا ہے۔
سفیر کارٹی نے کہا کہ "اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، مہسا امینی کی موت کی پہلی برسی کے موقع پر صدر بائیڈن نے 'ایران کے بہادر لوگوں کے لیے ہمارے عزم کا اعادہ کیا جو ان سے تحریک پا کر 'عورت، زندگی، آزادی' کی تاریخی تحریک کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
ان بہت سے لوگوں کی جرات اور قربانی کو سراہتے ہیں جو ظلم اور تشدد کا سامنا کرتے ہوئے نہ صرف صنفی مساوات بلکہ وسیع تر بنیادی آزادیوں کے لیے لڑنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں، جو ایران کی حکومت نے خواتین کو دینے سے انکار کر دیا ہے۔
سفیر کارٹی نے کہا کہ "انسانی حقوق تمام افراد پر، ہر وقت، ہر جگہ لاگو ہوتے ہیں۔ لہذا ہم سوال کرتے ہیں کہ کوئی بھی عالمی آبادی کے نصف حصے کو اپنے انسانی حقوق سے مکمل مستفید ہونے سے کیوں کر انکار کر سکتا ہے۔
معاشرے تب بہتر طور پر کام کرتے ہیں جب تمام افراد کو شامل کیا جاتا ہے اور ان کو مساوی تسلیم کیا جاتا ہے۔ عالمی چیلنجوں کا تبھی حل ممکن ہے جب خواتین اور لڑکیاں اپنے تمام تر تنوع کے ساتھ اس میں شامل ہوں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**