چوبیس اگست 1991 کو یوکرین نے سوویت یونین سے اپنی آزادی کا اعلان کیا اور خود اپنے مسققبل کا تعین شروع کیا۔ تاہم روس نے ایک خودمختار ریاست کے طور پر یوکرین کو تسلیم کرنے سے انکارکردیا اور اس کے علاقے میں دخل اندازی کرتا رہا۔ اس کے اداروں کو کمزور کرتا رہا اس کے لیڈروں کے خلاف سازشیں کرتا رہا یا ان میں سے بعض کو اپنے ساتھ ملاتا رہا اور اس کی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتا رہا۔ تاکہ یورپ اور مغرب کے ساتھ زیادہ سے زیادہ انضمام کے لیے یوکرین کی پرخلوص امنگوں میں رکاوٹ پیدا کی جا سکے۔
مختصر یہ کہ روس، ایک خود مختار جمہوری ریاست کے طور پر یوکرین کی صلاحیت کو مفلوج کرنے کے لیے کام کرتا رہا ہے۔
دو ہزارچودہ میں یوکرین کی عوام نے صدر وکٹوریانوکووچ کو ہٹا دیا جنہوں نے یورپی یونین کے ساتھ ملاپ کے ایک معاہدے پر مجوزہ دستخط کو منسوخ کردیا اور اس کے بجائے روس کی جانب جھک گئے۔ اس کے بعد روس نے ہلہ بول دیا اور یوکرین کے جزیرہ نما کرائمیا پر قبضہ کرلیا۔ اس نے ایک علیحدگی پسند بغاوت کے پردے میں یوکرین کے علاقوں لوہانسک اور ڈونسک پر بھی قبضے کی کوشش کی۔
وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ یوکرین میں بھی بعض جگہ لوگ روس کی مذموم کارروائیوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماسکو نے یوکرین کے جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ یوکرین کی سیاست اور انتخابات میں مداخلت کی ہے اور اس کی توانائی اور تجارت میں رکاوٹیں پیدا کی گئی ہیں تاکہ یوکرین کے لیڈروں کو ڈرایا دھمکایا جاسکے اور اس کے شہریوں پر دباؤ ڈالا جاسکے۔
اس نے بدگمانی کے بیج بونے کے لیے پروپیگنڈا اور غلط خبروں کی تشہیر کی اور ملک کے اہم بنیادی ڈھانچوں پر سائبر حملے کیے۔ یوکرین کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے بے مہم چلائی گئی۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ روس نے اپنے ملک اورقریبی اتحادی بیلاروس کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ ایک لاکھ روسی فوجیوں کے اجتماع کے بعد بھی مزید آگے جانا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ روس اپنی کاروائیوں کے دفاع میں یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یوکرین سے کسی نہ کسی طور پراس کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ یہ بات اس کے دماغ پر چھائی ہوئی ہے۔ کس کی افواج نے کس کو گھیر رکھا ہے۔ کس ملک نے دوسرے کے علاقے پر زبردستی دعویٰ جتا رکھا ہے۔ کس کی فوج تعداد کے اعتبار سے دوسرے کے مقابلے میں کئی گنا بڑی ہے۔ کس ملک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ یوکرین جارح نہیں ہے۔ یوکرین محض اپنی بقا کی کوشش میں ہے۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ دو عالمی جنگوں اور ایک سرد جنگ کے بعد بین الااقوامی امن اور سلامتی کے لیے جو رہنما اصول بنائے گئے تھے اس میں طاقت کے ذریعہ کسی اور ملک کی سرحدوں کو تبدیل کرنے کی کارروائی کو رد کردیا گیا ہے اورکسی اور ملک پراپنی بنائی ہوئی پالیسیوں یا اپنے کیے گئے فیصلوں کو مسلط کرنے سے ممانعت کی گئی ہے۔ جن میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اس بات کا فیصلہ کرے کہ اسے کس سے کنارہ کشی کرنی ہے۔
اس کے علاوہ کوئی ملک اثرو رسوخ کا ایسا دائرہ قائم نہیں کرسکتا جس سے خودمختار پڑوسی ممالک کو اپنا تابع بنایا جاسکے۔ اس کا تعلق کسی ممکنہ حملے یا جنگ سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ یوکرین کو اس بات کا حق ہے یا نہیں کہ وہ ایک خودمختار ملک کی حیثیت سے قائم رہے۔ اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ یوکرین کو ایک جمہوری ریاست کے طور پر قائم رہنے کا حق ہے یا نہیں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**