ہانگ کانگ کی قانون ساز اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں چینی کیمونسٹ پارٹی کے حامی امیدوار جیسے کہ توقع تھی کامیاب قرار دے دیے گئے ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ صرف بیجنگ نواز امیدواروں ہی کو ان انتخابات میں حصّہ لینے کی اجازت دی جائے انتخابی قوانین کو تبدیل کیا گیا تھا اس کے علاوہ جمہوریت نواز سرگرم کارکنوں کو پہلے ہی جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔
نئے قوانین کے تحت براہ راست منتخب ہونے والے قانون سازوں کی تعداد 35 سے گھٹا کر20 کر دی گئی ہے۔ جب کہ قانون ساز اسمبلی کے اراکین کی تعداد ستّر سے نوّے کر دی گئی ہے۔ زیادہ تراراکین کو چینی کیمونسٹ پارٹی کے حامی ادارے منتخب کرتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اسمبلی میں ان کی اکثریت کو یقینی بنایا جائے۔
ایسے ماحول میں یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد 30.2 رہی۔ 1997 کے بعد سے یہ تعداد سب سے کم تھی یعنی جب برطانیہ نے ہانگ کانگ چین کے حوالے کیا تھا۔
ایک مشترکہ بیان میں امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور برطانیہ کے ساتھ مل کر اپنے مشترکہ بیان میں مخصوص انتظامی علاقے کے انتخابی نظام میں سے جمہوری عناصرکو نکالنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ہانگ کانگ کے حقوق اوراس کی اعلیٰ درجے کی خود مختاری کو سلب کرنے کے اقدامات سے ہانگ کانگ کو کامیاب ہوتا دیکھنے کی ہماری خواہش کو ٹھیس پہنچی ہے۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ 1997 سے ہانگ کانگ میں مختلف سیاسی نظریات کے حامل امیدوار انتخابات میں مقابلہ کرتے تھے مگر اب موجودہ انتخابات میں یہ رجحان بالکل ختم کر دیا گیا ہے۔۔ ہانگ کانگ کے انتخابی نظام کی اسی سال تشکیلِ نو کی گئی اور اسے نافذ کر دیا گیا۔
اس کے تحت تعمیری اور بامعنی سیاسی حزبِ اختلاف کو ختم کر دیا گیا ہے۔ دریں اثنا شہر کے بہت سے ممتاز سیاست دان جیل میں ہیں اور ان کے خلاف مقدمات زیرِالتوا ہیں جب کہ کچھ نے جلا وطنی اختیار کر لی ہے۔ ان میں سے اکثریت ان سینتالیس امیدواروں کی ہے جو پچھلے سال کی جمہوری پرائمریز میں سرگرم تھے ان پرقومی سلامتی قانون کے تحت بغاوت کی سازش کا الزام عائد کر دیا گیا۔
امریکہ اوراس کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ انہیں قومی سلامتی کے قانون کے تکلیف دہ اثرات، تقریروں اور اجتماع پر بڑھتی ہوئی پابندیوں پر گہری تشویش ہے۔
جو غیر سرکاری تنظیمیں اور رفاہی ادارے حکومتی ایجنڈے کی حامی نہیں ہیں یا ان پر پابندی لگا دی گئی ہے یا انہیں ملک چھوڑنے پر زبردستی مجبور کیا گیا ہے جب کہ میڈیا کی آزادی کو سلب کر لیا گیا ہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**