امریکہ کی کوششوں سے سوڈان اور اسرائیل کے درمیان امن کا ایک معاہدہ ہوا ہے جو گزشتہ تین مہینوں سے بھی کم عرصے میں مسلمان اکثریت والے کسی ملک کے ساتھ اسرائیل کا ایسا تیسرا معاہدہ ہے۔ معاہدے کے تحت اسرائیل اور سوڈان نے اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دونوں ملک زراعت، معیشت، تجارت، ہوا بازی، امیگریشن کے مسائل اور باہمی فائدے کے دوسرے شعبوں میں تعاون کے سمجھوتوں کے بارے میں مذاکرات شروع کریں گے۔
یہ تاریخی امن سمجھوتہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان ہونے والے اسی طرح کے معاہدوں کے بعد طے پایا ہے۔ 'ابراہیم اکارڈز' نامی معاہدوں کو وسعت دے کر سوڈان کو شامل کرنا ایک اہم اقدام ہے جس سے سوڈان اور اسرائیل کے لیے مواقع پیدا ہوں گے کہ وہ دونوں اپنے اپنے ملکوں کی سیکیورٹی کو بڑھاتے ہوئے اپنے عوام کی زندگیوں کو بہتر بناسکیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کئی عشروں سے سوڈان اسرائیل کے ساتھ جنگ کی حالت میں تھا اور اس نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔
سنہ 1967 میں چھ روزہ جنگ کے بعد خرطوم میں عرب لیگ کا اجلاس ہوا تھا جس میں ایک اعلان جاری کیا گیا جسے تین نکات کے اعلان کا نام دیا گیا۔ یعنی کوئی امن نہیں، ایک دوسرے کوتسلیم نہ کیا جانا اور کوئی مذاکرات نہیں۔ اب یہ سب باتیں تبدیل ہوچکی ہیں جسیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینئر مشیر جیرڈ کشنر نے توجہ دلائی ہے کہ صدر ٹرمپ کے دورِ حکومت میں ہمارے سامنے تین باتیں اثبات کی شکل میں آئی ہیں: یعنی ہم امن سے ہیں، ہم ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہیں اور مزید امن کے لیے ہم مذاکرات کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ عشروں تک ایک ظالمانہ اسلام پسند آمریت کے تحت رہنے کے بعد جس نے دہشت گردی کی حمایت کی سوڈان کے لوگوں کو نئی پالیسیوں کے ساتھ ایک نئی حکومت ملی ہے۔ سوڈان کی عبوری حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے، آزاد معیشت اور جمہوری اداروں کے قیام کے سے اپنی وابستگی کا اظہار کیا ہے۔ جو معاہدہ طے پایا ہے اس کا مقصد ان ہی وابستگیوں کو آگے بڑھانا ہے اور یہ سوڈان کی تاریخ میں ایک کلیدی موڑ ہے۔
امریکہ اس اہم پیش رفت کا خیر مقدم کرتا ہے اور سوڈان کے لوگوں کی مدد کے لیے تیار ہے جب کہ وہ اپنے لیے اور آئندہ نسلوں کی خاطر ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ان تین نئے امن سمجھوتوں کے طفیل مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ میں سیاسی اور فوجی اعتبار سے اہم تبدیلی رونما ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ جیسے جیسے مزید ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پرلائیں گے، یہ علاقہ زیادہ مستحکم، محفوظ اور خوش حال ہو جائے گا۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**