جی سیون میں تبدیلیوں کے چار برس

فائل فوٹو

نومبر کے آخر میں دنیا کی بڑے صنعتی ممالک کی تنظیم جی سیون کے وزرائے خارجہ نے انتہائی اہم امور پر تبادلۂ خیال کیا۔ وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کا یہ آخری جی سیون اجلاس تھا جس میں انہوں نے گزشتہ چار برسوں کے دوران ان واقعات کا جائزہ لیا جنھوں نے ’’گروپ کو دنیا کی رہنما جمہوریتوں کی اسٹیئرنگ کمیٹی میں تبدیل کردیا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا، ’’ہمارے کام سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جب بھی ہم مل کر چلتے ہیں، جب ہم مشترکہ اہداف کے لیے اقدامات کرتے ہیں، تو ہم نہ صرف ان لوگوں کی زندگی میں بہتری لاسکتے ہیں جن کی ہم نمائندگی کرتے ہیں بلکہ دنیا میں کہیں بھی لوگوں پر اس کے مثبت اثرات ہوتے ہیں۔‘‘

اینٹنی بلنکن نے کہا ’’آج، ہم جی سیون کے ساتھی 2025 میں داخل ہوتے ہوئے اور آئندہ بھی یوکرین کی مکمل حمایت اور ایک بے مثال شراکت داری جاری رکھنے کا عہد کرتے ہیں۔ روس کی مسلسل جارحیت کے خلاف یوکرین کی مدد کے لیے شانہ بشانہ چلنے اور ہر ممکن مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘

’’ روس کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے مقابلے اور خاص طور پر شمالی کوریا کی فوج کے اس میں ملوث ہونے کے بعد یوکرین کے مشرق میں اس کی دفاعی صلاحیتیں بڑھانے کے لیے امریکہ یوکرین کی سیکیورٹی امداد جاری رکھے گا۔‘‘

انہوں نے کہا، ’’یہ بات دو وجوہ سے جی سیون ارکان کے لیے گہری تشویش کا باعث ہے۔ اس میں جہاں یوکرین یورپ کی سلامتی بہت اہم ہے وہیں یہ انڈو پیسیفک کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے۔‘‘

’’روس اور شمالی کوریا کے درمیان تعلق دو طرفہ ہے۔ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ شمالی کوریا یوکرین میں اپنے فوج بھیج کر روس کے لیے کیا کر رہا ہے، لیکن ساتھ ہی ہم اس پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ روس شمالی کوریا کے لیے کیا کررہا ہے اور کیا کرسکتا ہے، بشمول امکانی طور پر اس کی میزائل اور جوہری صلاحیتیں بڑھانے کے۔‘‘

وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کا یہ بھی کہنا تھا کہ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ میں شمالی کوریا کے فوجیوں کی شرکت کے ساتھ ساتھ روس کی دفاعی پیداواری صنعت کے لیے چین کی جانب سے جاری مدد ایسے عوام ہیں جن کی وجہ سے روس یوکرین کے خلاف اپنی جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ’’ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انڈو پیسیفک اور یورو اٹلانٹک کمیونٹی کی سیکیورٹی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔‘‘

’’عوامی جمہوریہ چین سے لاحق معاشی اور سلامتی کے خطرات پر ہمارے نکتۂ نظر سے جی سیون کی ہم آہنگی میں اضافہ ہوا ہے، ساتھ ہی ہم اس سے تعمیری تعلقات کی ضرورت کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔‘‘

بلنکن نے مزید کہا، ’’جب چین سے متعلق تحفظات سے نمٹنے کی بات ہو تو، مشترکہ اقدامات کے بجائے اگر ہمارا کوئی ملک تنہا قدم اٹھاتا ہے تو یہ زیادہ مؤثر نہیں ہوسکتا۔‘‘

’’خلاصہ یہ ہے: ہم اسی وقت زیادہ طاقت ور اور زیادہ مؤثر ہوں گے، جب ہم تنہا نہیں، مل کر کام کریں گے۔

یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔