کیوبا میں پرامن مارچ کو روکنے اور منتظمین کو ڈرانے دھمکانے کی کارروائیاں

فائل فوٹو

انسانی حقوق کے آفاقی اعلان کی شق 20 میں کہا گیا ہے کہ ہر ایک کو پرامن اجتماع اور دوسروں کے ساتھ مل کر اکھٹے ہونے کا حق ہے جس میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ٹریڈ یونین کی تشکیل کا حق اور اس میں شمولیت کا اختیار شامل ہے۔

کیوبا انسانی حقوق کے آفاقی اعلان کا ایک فریق ہے اور اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں شامل ہے۔ کیوبا کے خود اپنے آئین میں جس پر 2019 میں نظرِ ثانی کی گئی ہے، اجتماع کے حق اور مظاہروں اور جلوس کی اجازت دی گئی ہے۔

لیکن اس کے باوجود جب مظاہرین نے آرکی پیلیجو نامی فیس بک کے ایک گروپ کے ذریعے 20 نومبر کو تبدیلی کی خاطر قومی سطح پر مارچ کی اجازت کی درخواست دی تو حکومت نے اسی دن قومی دفاع کے دن کا اہتمام کیا اور فوجی مشقوں کے لیے تین دنوں تک سڑکوں پر فوجیوں کو مظاہروں کے مقام کے اردگرد تعینات کر دیا۔

فیس بک کے اس گروپ نے اس کے بعد 15 نومبر کو مارچ کی اجازت طلب کی۔ کیوبا کی حکومت نے اس درخواست کو منظور کرنے سے انکار کر دیا اور یہ کہا کہ یہ احتجاج ایک اشتعال انگیز کارروائی ہے اور کیوبا میں حکومت کی تبدیلی کے لیے ایک حربہ ہے جس کا تجربہ دوسرے ملکوں میں کیا گیا ہے۔

کیوبا کی حکومت مظاہرے کے منتظمین کو ڈرا دھمکا رہی ہے اور 15 نومبر کو مزدور یونینوں کے مظاہروں کو منسوخ کر دیا گیا۔ ساتھ ہی 11 جولائی کے احتجاج میں شامل مظاہرین کے لیے جنہیں حراست میں لیا گیا تھا، سخت سزاؤں کا اعلان کیا گیا ہے، انٹرنیٹ کی رسائی منقطع کر دی گئی ہے اور کھلم کھلا دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

امریکہ 15 نومبر کو مظاہروں کے لیے کیوبا کی حکومت کی جانب سے انکار کے فیصلے کی سخت مذمت کرتا ہے۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ کیوبا کی حکومت نے ان مظاہروں کی اجازت نہ دے کر صاف طور پر اس بات کا مظاہرہ کیا ہے کہ وہ کیوبا کے عوام کے انسانی حقوق اور ان کے بنیادی آزادیوں کے احترام یا ان کی پاسداری کے لیے تیار نہیں ہے۔

امریکہ، کیوبا کے عوام کے ساتھ اور ساتھ ہی ان کے پرامن اجتماع کے حق، آزادیٔ اظہار اور اپنی قیادت کے آزادانہ انتخاب اور ان کے مستقبل کی جدوجہد سے گہری وابستگی رکھتا ہے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**