امریکہ نے اپنے ملک کے اندر ناقابلِ تنسیخ انسانی حقوق سے جو وابستگی اختیار کر رکھی ہے، وہ بیرونِ ملک ان مردوں اور خواتین کے لیے امید کی مشعل ہے جو اپنی آزادیوں کے لیے کوشاں ہیں۔
محکمہ خارجہ میں پالیسی پلاننگ کے ڈائریکٹر پیٹر برکووِٹز کا کہنا ہے کہ ناقابلِ تنسیخ حقوق سے متعلق کمیشن کی طرف سے حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹ میں ایسے امریکی رہنماؤں کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے جو امریکہ کی خارجہ پالیسی میں رہنما اصول کے طور پر انسانی حقوق کی وکالت کرتے ہیں۔
ان کے بقول، "ہمارے رہنماؤں کے لیے یہ بات اہم ہے کہ وہ اپنی ان امریکی اقدار کے بارے میں شد ومد سے اظہارِ خیال کریں جن کی جڑیں امریکہ کے اعلانِ آزادی اور امریکی طرزِ حکومت میں پیوستہ ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ سیاسی قوت عوام کی خواہشات سے جنم لیتی ہے اور حکومت کا اولین مقصد ان حقوق کا تحفظ کرنا ہے جس کے تمام لوگ حق دار ہیں۔ ان حقوق کی وکالت امریکہ کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم حصہ ہے۔"
کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکہ اسی وقت دوسرے ملکوں میں انسانی حقوق کی وکالت کے معاملے میں نہایت مؤثر ہو سکتا ہے جب وہ ان حقوق کا اندرونِ ملک تحفظ کرتا ہو۔
ڈائریکٹر برکووِٹز کے بقول یہ لازم ہے کہ انسانی حقوق کو معاشرے میں فروغ دیا جائے تاکہ وہ سیاسی کلچر میں گہری جڑیں پکڑ لے۔
وہ کہتے ہیں کہ انسانی حقوق کا تحفظ اور انسانی حقوق کی وکالت ایسی بات نہیں ہے جو از خود وجود میں آجاتی ہے بلکہ اس کی نشو ونما کرنی پڑتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسانی حقوق کا احترام کس طرح نشوونما پاتا ہے؟ اسے خاندانوں کے اندر، برادریوں میں، تعلیمی نظام میں اور ایک مخصوص سیاسی کلچر کے اندر فروغ دینا ہوتا ہے جس سے شہریوں میں ایک شعور کو جلا ملتی ہے اور جو تمام لوگوں کے حقوق کا احترام سکھاتا ہے۔
ڈائریکٹر برکووِٹز نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ بیرونِ ملک انسانی حقوق کے فروغ کی کامیابی کے لیے یہ نہایت اہم ہے کہ محض اعلانِ آزادی پر توجہ مرکوز نہ کی جائے بلکہ انسانی حقوق کے عالمی اعلان کو بھی مدِنظر رکھا جائے تاکہ بنیادی حقوق کے کلیدی پہلو کا مناسب ادراک ہو سکے جو ہر جگہ سیاست کے لیے ایک معیار بنے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**