مغربی افریقہ میں داعش سے مقابلے کی ضرورت

امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے انسدادِ داعش ناتھن سیلز (فائل فوٹو)

عراق اور شام میں جب کہ داعش کی نام نہاد خلافت کا خاتمہ کردیا گیا ہے، امریکہ کو دوسرے علاقوں میں داعش اور اس سے منسلک دوسری تنظیموں کے سر اٹھانے پر تشویش ہے۔ دس نومبر کو امریکہ اور نائیجیریا میں داعش کو شکست دینے کے لیے قائم عالمی اتحاد کے اراکین کے ساتھ ایک ورچوئل میٹنگ کا اہتمام کیا گیا جس میں مغربی افریقہ کے ممالک اور متعلقہ علاقائی تنظیموں کے نمائندے شریک ہوئے تاکہ داعش سے درپیش خطرے پر تبادلۂ خیال کیا جاسکے۔

اتحاد میں امریکہ کے خصوصی ایلچی ناتھن سیلز نے کہا ہے کہ میٹنگ سے اس جنگ میں ایک نہایت اہم محاذ پر اتحاد کی نمایاں توجہ کا اظہار ہوتا ہے۔ خصوصی ایلچی سیلز نے کہا کہ شام اور عراق کے اہم مقامات پر ہم داعش کے احیاء کو روکنے پر بدستور اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔ اس کےساتھ ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم داعش کی جانب سے ان مرکزی مقامات سے باہر اپنی شاخوں اور نیٹ ورک کو جنگ جاری رکھنے کے لیے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرنے سے بھی روکیں۔ افریقہ سے زیادہ خطرناک یہ رجحان کہیں اور نہیں دیکھا گیا۔

ان کے بقول اگر ہم نے داعش کو پوری دنیا میں شکست دینے کا عزم کررکھا ہے، جو کہ ہم رکھتے ہیں، تو ہمیں افریقہ اور خاص کر مغربی افریقہ میں اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ خصوصی ایلچی سیلز نے اس جانب اشارہ کیا کہ داعش سے منسلک گروپوں کی جانب سے مغربی افریقہ میں گزشتہ برسوں کے دوران حملوں کی تعداد اور ان کی ہلاکت خیزی میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔

انھوں نے کہا کہ تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ عالمی اتحاد نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ اس میں لچک ہے اور اس بات کی صلاحیت موجود ہے کہ وہ بڑھتے ہوئے خطرے سے خود کو ہم آہنگ کرتے ہوئے اس کا جواب دے سکے۔ انھوں نے اس جانب توجہ دلائی کہ داعش کے خلاف جنگ لازمی طور پر خود اس کے اپنے علاقے میں لڑی جانی چاہیے، اتحاد میں سویلین اور فوجی خطوط پر تعاون کا ایک طریقۂ کار اور دوطرفہ اور کثیر طرفہ حکمتِ عملی ترتیب دی ہے جس سے علاقے میں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے دوسرے طریقوں میں بھی مدد ملے گی۔

خصوصی ایلچی سیلز نے زور دیا کہ جب کہ عالمی اتحاد داعش کے خلاف جنگ میں حصہ ڈالنے کا فیصلہ کیے ہوئے ہے، یہ ضروری ہوگا کہ سیکیورٹی فورسز انسانی حقوق کے احترام کو اپنی کوششوں کا ایک کلیدی حصہ بنائیں۔ انھوں نے اس جانب توجہ دلائی کہ سیکورٹی فورسز کی جانب سے سرزد ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے دہشت گردوں کی اس صلاحیت کو براہِ راست تقویت ملتی ہے کہ وہ انتہا پسندی اور لوگوں کو بھرتی کرنے کی اپنی صلاحیت میں اضافہ کرسکیں گے اور حکومت کی جائز حیثیت کو بدنامی سے دوچار کرسکیں گے۔

دو ہزار سترہ کے بعد سے امریکی عوام نے ایک وسیع علاقے میں جس میں جی فائیو ساحل اور لیک چاڈ بیسن شامل ہے، گیارہ کروڑ چالیس لاکھ ڈالر سے زیادہ کی رقم دہشت گردی کے خاتمے میں مدد کے لیے خرچ کی ہے۔ خصوصی ایلچی سیلز نے اگلے سال کے دوران مزید تین کروڑ ڈالر دینے کے امریکی منصوبے کی نشان دہی کی۔ انھوں نے زور دیا کہ مغربی افریقہ میں داعش کے خطرات کے خلاف ہماری مشترکہ جنگ ایک کلیدی اہمیت کی حامل ہے، جس کی مدد کا امریکہ نے تہیہ کر رکھا ہے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**