ستائیس جنوری کو بین الاقوامی طور پر ہولوکاسٹ کی یاد کا دن منایا جاتا ہے۔
یہ ایک ایسا موقع ہے جب ان لاکھوں یہودیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے جنہیں نازی جرمنی اور اس کے ساتھ ساز باز کرنے والوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
ہولو کاسٹ کے بعد ایسے بیانات کے باوجود اب کبھی اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی اور چوکنا رہنے کے عہد کے باوجود دوسری عالمی جنگ کے بعد سے نسل کشی کے جرم کا ارتکاب ہوتا رہا ہے۔ ایسا کمبوڈیا ، راونڈا، دارفور اور ان علاقوں میں دیکھنے میں آیا جو پہلے داعش کے کنٹرول میں تھے۔
نسل کشی کے جرم سے متعلق بچاؤ اور سزا کا 1948 کا کنونشن پہلی قانونی دستاویز ہے جس میں نسل کشی کو جرم کی حیثیت دی گئی ہے۔ اس میں نسل کشی کی تعریف ایسی مخصوص کارروائیوں کے طور پر کی گئی ہے جن کا مقصد جزوی یا کلی طور پر کسی قومی، نسلی، لسانی یا مذہبی گروپوں کو تباہ کرنا ہے۔
کنونشن میں پانچ کارروائیوں کی نشان دہی کی گئی ہے جن میں کسی گروپ کے ارکان کو ہلاک کرنا، گروپ کے اندر افزائشِ نسل کو روکنے کے لیے اقدامات کرنا اور کسی گروپ کے بچوں کو زبردستی منتقل کرنے جیسی کارروائی شامل ہے۔ اس میں سازش، ساز باز میں ملوث ہونے اور نسل کشی کے لیے کوشش یا اس پر اکسانے کی کارروائی بھی شامل ہے۔
ہولوکاسٹ، نسل کشی کی ایک ایسی کارروائی تھی جس سے مراد خاص کر نازی جرمنی اور اس کے ساتھ ساز باز کرنے والوں کے ہاتھوں یورپی یہودیوں کو نیست و نابود کرنا تھا۔
اگرچہ یہ عام طور پر پتہ ہے کہ ہولو کاسٹ کا واقعہ دوسری عالمی جنگ کے موقع پر ہوا لیکن اس کی ابتدا سن 1930 کے عشرے سے ہو چکی تھی۔
نازی پارٹی جب ایک مرتبہ اقتدار میں آ گئی تو نازی حکومت نے سیاسی مخالفین اور ان لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کیا جنہیں وہ ہمیشہ سے کمتر خیال کرتے تھے۔ 30 کے عشروں میں زیادہ سے زیادہ ایسے اقدامات کیے جانے لگے جن سے جرمنی کے معاشرے میں یہودی برادری اور دوسرے گروپ الگ تھلگ ہونے لگے۔
دوسری عالمی جنگ کے شروع ہونے کے ساتھ ہی شہری آبادیوں کے خلاف جرائم زیادہ عام ہو گئے اور 1941 میں سوویت یونین پر حملے کے بعد، مشرقی یورپ میں یہودی برادریوں کے خلاف جرائم کا آغاز ہو گیا۔
سن 1942 کے شروع میں نازی قیادت نے اس بات پر عمل درآمد شروع کر دیا جسے انہوں نے "حتمی حل" کا نام دیا تھا اور اس کا مقصد، سرکاری پالیسی کے طور پر آبادی کے ایک مخصوص حصے کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملیا میٹ کرنا تھا۔
یہ دوسری عالمی جنگ کا حصہ تھا تاہم نازیوں کی جنگی کوششوں سےعلیحدہ تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ حتمی حل کے منصوبے کو اکثر جنگی کوششوں پر اولیت حاصل ہوتی تھی۔ ایسا اس بات کے باوجود ہوتا تھا کہ اگلے محاذوں پر عملے اور ساز و سامان کی شدید ضرورت ہوتی۔ تاہم موت کے کیمپوں سے کسی قسم کا بھی سامان وہاں منتقل نہیں کیا گیا۔
بالآخر "حتمی حل" کا نتیجہ ساٹھ لاکھ یہودیوں کی ہلاکتوں کی صورت میں ظاہر ہوا۔ وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ بڑے پیمانے پر ہماری دنیا میں بدی جنم لے سکتی ہے اور لیتی ہے اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اسے روکنے کے لیے ہم جو بھی کر سکتے ہیں کریں۔
یہی وجہ ہے کہ یہ بات اہم ہے کہ ہم ماضی کے بارے میں سچ بولیں اورحقائق کا تحفظ کریں جب دوسرے لوگ ہولوکاسٹ کے جرائم کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے یا ان کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہوں اور ہم بچ جانے والوں اوران کے اہل خاندان کے لیے حصول ِانصاف کی خاطرکوشاں رہیں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**