اس سال دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کی 80 ویں برسی منائی جا رہی ہے: ایک ایسی آفت جس کے نتیجے میں تقریباً 70 سے 85 ملین افراد ہلاک ہوئے اور جن میں شہریوں کی تعداد 50 سے 55 ملین تھی۔
ان میں سے 60 لاکھ یورپی یہودی تھے جنہیں جرمنی اور جرمنی کے زیر قبضہ علاقوں میں پکڑ کر حراستی اور جبری مشقت کے کیمپوں میں منتقل کیا گیا۔ وہاں انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یا وہ بھوک سے ہلاک ہوئے یا لیبارٹریوں اور طبی تنصیبات میں موت کا شکار ہوئے جہاں انہیں مختلف طبی تجربات کا ہدف بناتے ہوئے استعمال کیا گیا یا محض یہودی ہونے کی وجہ سے انہیں زہریلی گیس کے ذریعے ہلاک کر دیا گیا تھا۔
یہودیوں کے علاوہ متعدد دوسری اقلیتوں کو بھی خاتمے کا نشانہ بنایا گیا جن میں سیاسی مخالفین اور کارکن، کمیونسٹ، دانش ور، رومی خانہ بدوش لوگ، ہم جنس پرست اور ذہنی طور پر معذور افراد شامل ہیں۔ لیکن کوئی دوسرا گروپ ایسا نہیں تھا جسے اتنی سختی سے اور اتنی بڑی تعداد میں صرف نسلی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا۔
درحقیقت 1942 کے اوائل میں نازی قیادت نے اس نظریے کے نفاذ کو باضابطہ شکل دی جسے وہ ’حتمی حل‘ کہتے تھے یعنی حکومتی پالیسی کے طور پر آبادی کے کسی مخصوص طبقے کو منظم طریقے سے ختم کرنا۔ نازی حکومت نے یورپی یہودیوں کے خلاف جو نسل کشی کی تھی آج اسے ہولوکاسٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
27 جنوری 1944 کوسوویت مسلح افواج نے جنوبی پولینڈ میں آؤشوٹس حراستی اورموت کیمپ کمپلیکس کو آزاد کرایا۔ افسوس کی بات ہے کہ آؤشوٹس سے ثبوتوں کے انبار اور اس طرح کی دیگرتنصیبات کے وسیع نیٹ ورک، زندہ بچ جانے والوں کی وسیع شہادتوں اور حراستی اور موت کے کیمپوں سے آزاد کرائے جانے والے لوگوں میں سے عینی شاہدین کے بیانات کے باوجود ہولوکاسٹ سے انکار اور حقائق کو غلط طور پر پیش کرنے کا عمل جاری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ نے دو دہائیاں قبل 27 جنوری کی تاریخ کو نسل کشی کا شکار ہونے والے لاکھوں متاثرین کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منتخب کیا: 2005 سے 27 جنوری کو متعدد قومیں بین الاقوامی ہولوکاسٹ میموریل ڈے کے طور پر مناتی ہیں۔
یہ خود شناسی اور یاد کا دن ہے اور اس کے علاوہ لوگوں کو ہولوکاسٹ کے بارے میں آگاہی دینے کا ایک موقع بھی ہے تاکہ اسے پھر کبھی دہرایا نہ جائے۔
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کو 80 سال ہو گئے اور چار نسلیں گزر چکی ہیں۔ بہت کم ایسے لوگ رہ گئے ہیں جو ہولوکاسٹ سے بچ گئے تھے یا وہ لوگ باقی ہیں جنہوں نے موت کے کیمپ کے دروازے کھولے اور مجرموں کو رہا کیا۔
اب اس بات کا انحصار ہم پر ہے کہ ہم نفرت اور عدم برداشت کو دوبارہ کبھی انسانیت اور دوسروں کی زندگیوں کے احترام کو برباد نہ ہونے دیں۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔