قوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 15 ارکان نے خلا میں جوہری ہتھیاروں پر پابندی کی قرارداد پر اپریل کے آخر میں ووٹ دیا۔ 13 نمائندوں نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ چین نے ووٹ دینے سے اجتناب کیا جب کہ صرف روس ایک ایسا ملک تھا جس نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔
امریکہ کے خصوصی سیاسی امور کے لیے متبادل نمائندے رابرٹ ووڈ نے کہا کہ ’’24 اپریل کو روس نے ایک قرارداد کو ویٹو کر دیا جس میں تمام ریاستوں کے اس مشترکہ مقصد کی توثیق کی گئی تھی اور اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ بیرونی خلا میں ہتھیاروں کی دوڑ کو روکا جائے اور خلائی تحقیق اور بیرونی خلا کو پر امن مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔
رابرٹ ووڈ کہتے ہیں کہ ’’اس بیرونی خلائی معاہدے میں شامل امریکہ کے تمام ساتھی ممالک کی طرف سے اس ذمہ داری کی توثیق ہو گی کہ وہ کوئی جوہری ہتھیار یا وسیع پیمانے پر تباہی کے حامل ہتھیار زمین کے مدار میں نہ رکھیں۔
اس معاہدے میں روس اور چین سمیت 115 ممالک شامل ہیں۔ اس میں رکن ممالک سے یہ بھی مطالبہ ہو گا کہ وہ ایسے جوہری ہتھیاروں کو بھی تیار نہ کریں جو خاص طور پر مدار میں رکھنے کے لیے بنائے گئے ہوں۔ اس سے خلا میں کسی ایٹمی دھماکے کا خطرہ کم ہو جاتا۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سامنے روس کی جانب سے ویٹو کے دفاع میں امریکہ اور مغربی ممالک کے خلاف الزامات کی فہرست شامل تھی جس میں ہتھیاروں کی تنصیب کا منصوبہ بھی شامل تھا۔ اس کے بعد روس نے اپنی قرارداد پیش کی جس میں بیرونی خلا میں کسی بھی ہتھیار کی تنصیب پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا۔
سفیر ووڈ نے کہا کہ روس کی قرارداد رکن ممالک کو متحد کرنے کے بجائے تقسیم کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔
سفیر ووڈ نے کہا کہ ’’سمجھنے میں غلطی نہ کریں کیوں کہ یہ ایک ایسا بناوٹی چہرہ ہے جو روس کے حقیقی ارادوں کو چھپاتا ہے۔
سچ بات تو یہ ہے کہ اس وقت بھی روس کے کئی روایتی اینٹی سیٹلائٹ ہتھیار پہلے سے ہی مدار میں موجود ہیں جن میں سے ایک کا اس نے 2019 میں تجربہ کیا تھا۔
مزید یہ کہ روس نے بارہا ان سیٹلائیٹس کو ہتھیاروں سے نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے جن میں تجارتی سیٹلائٹس بھی شامل ہیں۔
سفیر ووڈ کہتے ہیں کہ درحقیقت ایسی مصدقہ اطلاعات بھی ہیں کہ روس جوہری ہتھیار لے جانے والا ایک نیا سیٹلائٹ تیار کر رہا ہے۔
سفیر کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے صدر پوٹن کو کھلم کھلا یہ کہتے سنا ہے کہ روس کا خلا میں جوہری ہتھیاروں کی تنصیب کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ تاہم اگر ایسا ہوتا تو روس اس قرارداد کو ویٹو نہ کرتا۔
سفیر ووڈ نے کہا کہ ’’روس کے اقدامات سے کافی شکوک پیدا ہوتے ہیں کہ آیا وہ بیرونی خلائی معاہدے کے تحت اپنی موجودہ قانونی ذمہ داریوں کی پاسداری کرے گا اور بین الاقوامی امن اور سلامتی کے تناظر میں خدشات کا اظہار کرے گا۔
سفیر ووڈ مزید کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ آج ہم سب کے لیے بیرونی خلائی معاہدے اور مدار میں جوہری ہتھیار نصب کرنے کی واضح ممانعت کی حمایت میں آواز بلند کرنا بہت ضروری ہے۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔