امریکہ اور بحرین کے درمیان عشروں سے مضبوط تعلقات رہے ہیں۔ یکم دسمبر کو دونوں ملکوں نے اپنے پہلے دو طرفہ اسٹریٹجک مکالمے کا آغاز کیا جس کی ابتدا وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اور بحرین کے وزیرِ خارجہ عبد الطیف بن راشد کے ورچوئل خطابات سے ہوئی۔
وزیرِ خارجہ پومپیو نے تاریخی میثاقِ ابراہیمی پر دستخط کرنے پر بحرین کی تعریف کی جس کے بعد اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات معمول پر آگئے ہیں۔ اسرائیل کو حال ہی میں تسلیم کرنے والے چار عرب ملکوں میں سے یہ کام انجام دینے والا بحرین دوسرا ملک ہے۔ اس کے بعد بہت سے شعبوں میں جن میں سیاحت، تعلیم، تجارت اور سیکیورٹی شامل ہے، تعاون کے راستے کھل گئے ہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ کے بقول یہ خطے کے لیے امید کی ایک علامت ہے۔ یہ علاقہ بوسیدہ اور فرسودہ سوچ سے باہر نکل رہا ہے، جس پر اب کوئی بھی واپسی کا خواہش مند نہیں ہوگا۔ اور مجھے امید ہے کہ زیادہ سے زیادہ اقوام بحرین کی قیادت کی تقلید کریں گی جس سے اس بات کا اظہار ہوگا کہ کسی ملک کا محض جغرافیائی حجم دنیا کے منظر نامے پر اثرانداز ہونے کا سبب نہیں بنتا۔
اس کے علاوہ وزیرِ خارجہ پومپیو نے امریکہ کے لیے سیکورٹی کے ایک شراکت دار کے طور پر بحرین کے کردار کو اجاگر کیا۔ انھوں نے داعش کی جعلی خلافت کے خلاف فضائی حملوں میں بحرین کی اعانت کی مثال دی جس سے داعش کو شکست دی جاسکی۔ انھوں نے امریکہ کے بحری سنٹرل کمان اور امریکہ کے پانچویں بحری بیڑے کے ہیڈکوارٹر کی میزبانی میں بحرین کے کردار کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی۔ ان کے بقول اس کی وجہ سے ہمیں بہت سے شعبوں میں تعاون کا موقع ملتا ہے جن میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے لے کر ایران کے بحری حملوں سے بلا خوف و خطر خلیج میں سامان کی نقل و حرکت شامل ہے۔
وزیرِ خارجہ پومپیو نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ ایرانی حکومت خلیج کی سلامتی اور پورے علاقے میں امن پسند لوگوں کے لیے اول درجے کا خطرہ ہے۔ ان کے بقول میں بحرین اور اس کے لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انھوں نے زیادہ سے زیادہ دباؤ کی مہم کے لیے پرعزم طور پر حمایت کی جس میں کامیابی سے تہران کو الگ تھلگ کردیا ہے اور ایران کے مذموم اثر ونفوذ اور دہشت گردی کے لیے اربوں ڈالر سے محروم کر دیا ہے۔
وزیرِ خارجہ پومپیو نے کہا کہ بحرین اور امریکہ میں جو قدر مشترک ہے وہ خارجہ پالیسی کے معاملے میں کلیدی ادراک ہے۔ ہم حقیقت پسند ہیں اور ہم دنیا کو صحیح پسِ منظر میں دیکھتے ہیں۔ ہمیں انقلابی ایرانی حکومت کی پرتشدد حیثیت کا احساس ہے اور ہم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جب تہران کا توڑ کرنے اور بہت سے دوسرے اہم معاملات کی بات سامنے آتی ہے تو اسرائیل ایک کلیدی شراکت دار ہوتا ہے۔
چند ہفتوں کے دوران امریکی محکمۂ خارجہ اور دوسرے امریکی اداروں کے پانچ ورکنگ گروپوں نے اپنے بحرینی ہم منصبوں سے ملاقاتیں کیں اور ایسے شعبوں مثلاً فوجی تربیت، عورتوں کو بااختیار بنانے، انسانی حقوق اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے مستقبل کے فائیو جی نیٹ ورک کو درپیش خطرات پر تبادلۂ خیال کیا۔ وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ وہ پرامید ہیں کہ ان اجلاسوں سے امریکہ اور بحرین کے درمیان اور بھی مضبوط اتحاد کی بنیاد فراہم ہوجائے گی۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**