دس برس پہلے جنوبی سوڈان کے لوگوں نے سوڈان سے علیحدگی کے لیے ووٹ دیا اور بڑی امیدوں اور خوشیوں کے ماحول میں دنیا کی نئی قوم کا وجود نو جولائی 2011 کو عمل میں آیا۔
لیکن ابتدائی دنوں کا جوش و خروش مشرقی افریقہ کے اس ملک کے بہت سے حصوں میں جلد ہی مایوسی میں تبدیل ہو گیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ستمبر 2013 تک صدر سلوا کیر اور نائب صدر ریک مچار کے درمیان اقتدار کی کشمکش بڑھ کر خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئی۔
خانہ جنگی باضابطہ طور پر ایک امن معاہدے کے ساتھ ختم ہو گئی جس پر 2018 میں دستخط ہوئے۔ تاہم فروری میں جنوبی سوڈان میں انسانی حقوق سے متعلق اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق تشدد جاری ہے بلکہ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکہ، برطانیہ اور ناروے کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس نوزائیدہ ملک کی تاریخ میں پہلے 10 برس انتہائی مصائب کا شکار رہے ہیں اور اس کی وجہ تنازع کی بنا پر زیادتیوں، قحط، سیلاب اور بیماری رہی ہے۔
تینوں ملکوں نے فوری کارروائی پر زور دیا ہے تاکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کو یقینی بنایا جا سکے اور جنوبی سوڈان کے لوگوں اور ان کے لیے کام کرنے والے امدادی کارکنوں کے خلاف تشدد کا خاتمہ کیا جا سکے۔ عام لوگ 2018 کے امن معاہدے کے چند ایک اچھے نتائج دیکھ رہے ہیں۔
ایک الگ بیان میں یو ایس ایڈ کی منتظم سمانتھا پاور نے کہا کہ جنوبی سوڈان کے لیڈروں نے دنیا کی خیر سگالی، تیل سے حاصل ہونے والی ملک کی آمدن اور اپنے ملک کے ایک کروڑ 20 لاکھ لوگوں کی بہتری کے لیے بے شمار مواقع کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔
اس وقت جنوبی سوڈان کی تقریباً دو تہائی آبادی کو بھوک کا سامنا ہےجو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ ملک کی ایک تہائی آبادی یعنی 38 لاکھ لوگ بدستور بے گھری کا شکار ہیں، 22 لاکھ پڑوسی ملکوں کو ہجرت کر چکے ہیں جب کہ 16 لاکھ افراد اندرون ملک بے گھر ہو گئے ہیں۔
امریکہ، برطانیہ اور ناروے اور یو ایس ایڈ کی منتظم پاور نے یہ بھی کہا ہے کہ جنوبی سوڈان کی حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے لیے خدمات انجام دے، اور اس کے لیڈروں کو چاہیے کہ وہ اپنے عوام کو اولیت دیں۔ تشدد کے خاتمے کے علاوہ پرامن، معتبر اور ایسے الیکشن کے لیے تیاریاں فوری طور پر شروع کی جائیں جس میں سب ہی شریک ہو سکیں۔
اس کے علاوہ متحدہ افواج لازمی طور پر تشکیل دی جائے، انصاف کے لیے عبوری طریقۂ کار پوری طرح قائم کیا جائے اور کلیدی مالیاتی اصلاحات جتنی جلد ممکن ہو سکے نافذ کی جانی چاہیے۔
اب جب کہ جنوبی سوڈان اپنے قیام کے دوسرے عشرے میں داخل ہو رہا ہے، امریکہ، برطانیہ اور ناروے اس پیش رفت کا خیر مقدم کرتے ہیں جو حاصل کی گئی ہے، تاہم انہوں نے معاہدے کے دستخط کنندگان پر زور دیا کہ وہ اپنے کیے گئے وعدوں کے لیے جواب دہی کو قبول کریں اور آگے کی جانب تیزی سے اقدامات کریں۔
دوسری جانب یو ایس ایڈ کی منتظم پاور نے کہا کہ جنوبی سوڈان کے لیڈروں کے لیے وقت آ گیا ہے کہ اس امن معاہدے کے تحت کارگزاری کا مظاہرہ کریں، جس پر انہوں نے دستخط کیے ہیں، اور اس قوم کی تعمیر کا مشکل کام شروع کریں جس کا خواب انہوں نے عشروں پر محیط آزادی کی جدوجہد کے دوران دیکھا تھا۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**