آسٹریلیا نے اپنے قانون کے تحت پوری تنظیم کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا جو فیصلہ کیا ہے امریکہ اس کا خیر مقدم کرتا ہے۔
آسٹریلیا کی وزیرِ داخلہ کیرین اینڈریوز نے کہا ہے کہ ایران کی پشت پناہی میں چلنے والا شیعہ گروپ دہشت گرد حملے جاری رکھے ہوئے ہے اوردوسرے دہشت گرد گروپوں کو امداد فراہم کر رہا ہے اور یہ آسٹریلیا کے لیے حقیقی اور قابلِ یقین خطرہ پیدا کر رہا ہے۔ ماضی میں آسٹریلیا نے صرف حزب اللہ کو ایسی دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا جو بیرونی سلامتی کے لیے خطرہ تھی۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بیان میں آسٹریلیا کے فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ کے فوجی شعبے کو اس دہشت گرد تنظیم سے علیحدہ کرنا ایک غلطی تھی اور اب اس تفریق کو ختم کر دینا آگے کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے۔
حزب اللہ خود بھی اپنے عسکری اور سیاسی شعبوں کے درمیان کوئی تمیز نہیں کرتا۔ 2012 میں حزب اللہ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل نعیم قاسم نے کہا تھا کہ "ہمارا کوئی فوجی یا سیاسی ونگ نہیں ہے ہر چیز حزب اللہ میں شامل ہے۔ کمانڈر سے لے کر عام اراکین تک ہماری مختلف صلاحیتیں ہماری مدافعت کی سرگرمیوں کے لیے وقف ہیں۔
امریکہ نے تمام ملکوں سے کہا کہ وہ حزب اللہ کے نام نہاد شعبوں کو ایک دوسرے سے جدا نہ سمجھیں بلکہ ان کے ساتھ ایک کُل کے طور پر برتاؤ کریں جو پوری دنیا میں دہشت گردی کا حامی اوراس کو پھیلانے کا موجب ہے، اس کی مالی اعانت کرنے والوں پر پابندیاں لگنی چاہئیں ان کے اثاثے ضبط ہونا چاہیے اور ان کی سرگرمیوں کو پہلے سے روکنے کی غرض سے ان پر تحقیق ہونی چاہیے۔
آسٹریلیا ، عرب لیگ کے بہت سے رکن ممالک، برطانیہ، کینیڈا، جرمنی، ہالینڈ، ہنڈوراس، ارجنٹائین، یورپی اور لاطینی امریکہ کے ممالک اور اب آسٹریلیا سمیت بہت سے ملکوں نے امریکہ کے مطالبے کا مثبت جواب دیا ہے۔
ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ حزب اللہ ایک خطرناک دہشت گرد تنظیم ہے، اس نے نہ صرف بین الاقوامی برادری کی سلامتی کو خطرے میں ڈالا ہے بلکہ لبنان کی ملکی خود مختاری پر بھی ضرب لگائی ہے۔ انہوں نے کہ اس تنظیم کی نیم عسکری اور دہشت گردی کی صلاحتیں بہت مضبوط ہیں ، لبنان ، مشرق وسطیٰ اور پوری دنیا میں امن و استحکام قائم کرنے کی راہ میں اس کی پروپیگنڈا مشینری اور بد عنوان مالی نیٹ ورکس سب سے بڑی روکاوٹ ہے۔ آسٹریلیا نے جو اقدام اٹھایا ہے وہ آسٹریلیا اور بیرون ملک حزب اللہ کی کارروائیوں کا انسداد کرنے کے سلسلے میں بہت اہم ہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**