Accessibility links

Breaking News

بائیڈن اور شی کی ورچوئل ملاقات


پندرہ نومبر کو صدر جو بائیڈن اور عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی جن پنگ نے اپنی ورچوئل میٹنگ سے قبل ہی اس بات کا اظہار کیا کہ انہیں توقع ہے کہ بات چیت دو ٹوک، واضح اور جامع ہو گی۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی امیدیں پوری ہو گئیں۔

ایک بیان میں وائٹ ہاؤس نے کہا کہ دونوں راہنماؤں نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی پیچیدہ نوعیت اور مسابقت کو ذمہ داری سے نمٹانے کی اہمیت پر تبادلۂ خیال کیا۔ صدر بائیڈن نے دو ٹوک انداز میں بات کرنے اور صدر شی سے وسیع تر مسائل پر ہمارے مؤقف اور ترجیحات کے بارے میں صاف گوئی سے گفتگو کرنے کے موقع کا خیر مقدم کیا۔ ان مسائل میں سنکیانگ، تبت اور ہانگ کانگ میں عوامی جموریہ چین کی کارروائیوں سے متعلق امریکہ کی تشویش اور وسیع تر معنوں میں انسانی حقوق کا مسئلہ شامل تھا۔

اس کے علاوہ اس معاملے پر بھی تبادلۂ خیال ہوا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اکیسویں صدی کی راہ پر چلتے ہوئے ان اصولوں کو ایک ایسے بین الاقوامی نظام میں ڈھالا جائے جو آزاد، کھلا اور منصفانہ ہو۔ ساتھ ہی ہند و بحرالکاہل کے علاقے میں خوش حالی کے لیے جہاز رانی اور محفوظ فضائی راہداری کی آزادی اور امریکی کارکنوں اور صنعتوں کی غیر منصفانہ تجارتی اور اقتصادی کارروائیوں سے تحفظ کی ضرورت کے معاملات بھی شامل تھے۔

تائیوان کے معاملے پر وائٹ ہاؤس نے کہا کہ صدر بائیڈن نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ تائیوان کے ساتھ تعلقات کے ایکٹ، تین مشترکہ اعلامیے اور چھ یقین دہانیوں کے تحت "ایک چین" کی پالیسی سے بدستور وابستگی رکھتا ہےاور یہ کہ امریکہ موجودہ صورتِ حال کو تبدیل کرنے کی یک طرفہ کوششوں یا آبنائے تائیوان میں امن اور استحکام کو نقصان پہچانے کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔

فوجی خطرات سے نمٹنے کی اہمیت پر بھی تبادلۂ خیال کیا گیا اور اس پر زور دیا گیا کہ سمجھ داری سے ایسے حفاظتی اقدامات ترتیب دیے جائیں کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ امریکہ اور عوامی جمہوریۂ چین کے درمیان مسابقت تنازعے کی شکل اختیار نہ کرے اور رابطوں کو کھلا رکھا جائے۔

اس کے علاوہ صدر بائیڈن نے صدر شی سے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کی قیادت کرنے والے ملکوں کے طور پر مل جل کر کام کرنے کے بارے میں بات چیت کی، خاص کر ایسے شعبوں میں جہاں ہمارے مفادات یکساں ہوں مثلاً عالمی صحت کی سیکیورٹی، ناجائز منشیات کا قلع قمع کرنا اور موسمیات کی تبدیلی کا مسئلہ۔

امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے، جو میٹنگ میں شریک تھے، بات چیت کو دو راہنماؤں کے درمیان ایسی ملاقات قرار دیا جس میں دونوں کو امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات کو استوار کرنے کی اہم ذمہ داری کا احساس تھا۔ وہ اس ذمہ داری کو اٹھانے اور ان الفاظ کا لحاظ رکھنے کے لیے جو وہ اپنی رائے زنی میں استعمال کرتے ہیں اور مختلف مسائل پر جو مؤقف اختیار کرتے ہیں ان سب پر اپنے ذمہ دارانہ طرزِ عمل کے منتظر ہیں۔

تاہم مسٹر سلیون نے اس جانب توجہ دلائی کہ صدر بائیڈن نے یہ بات واضح کی کہ اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں اور ان کے ساتھ جو ہماری جمہوری اقدار میں شامل ہیں، ہم ایک خاص وژن کے لیے کام کرتے رہیں گے۔ یہ چین کے خلاف نہیں ہو گا بلکہ یہ ایک ایسے بین الاقوامی نظام کے لیے ایک مثبت وژن ہو گا جو بدستور آزادانہ، شفاف اور منصفانہ بنیادوں پر قائم رہے گا۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**

XS
SM
MD
LG