ایک اندازے کے مطابق تقریباً 274 ملین لوگوں کو اگلے سال کسی نہ کسی انداز میں ہنگامی امداد کی ضرورت ہو گی۔
یو۔ایس ایڈ کی منتظمِ اعلیٰ سمانتھا پاور نے 2022 میں پوری دنیا میں انسانی صورتِ حال کے بارے میں ایک ورچوئل جائزہ اجلاس میں شرکت کے دوران کہا کہ پرتشدد لڑائیوں کی وجہ سےغربت اور مصائب کے جغرافیائی علاقے تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس لیے "ہمیں اپنی توجہ کے مراکز تبدیل کرنا ہوں گے اور نہ صرف یہ کہ جہاں ہم کام کر رہے ہیں بلکہ اپنے شراکت داروں کو بھی بدلنا ہو گا۔
سمانتھا پاور نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقامی لوگوں کومضبوط بنا کران کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کام کرنا، چاہے ریڈ کراس کی مقامی شاخیں ہوں یا ہلال احمر اور دوسرے بین الاقوامی ادارے ہوں، امداد وصول کرنے والی حکومتیں ہوں، یا جس معاشرے میں ہم کام کر رہے ہیں، ان سے پیوستہ کسی عقیدے کے ماننے والوں کی تنظیمیں۔
یو ایس ایڈ کی منتظم اعلی نے یہ بھی کہا کہ اس میں خصوصی طور پرعورتوں کی قیادت میں چلنے والے ادارے بھی شامل ہیں۔ کیونکہ یہ دنیا کے ان خوفناک ترین بحرانوں سے نمٹتے ہیں، جنہیں اکثرنظرانداز کردیا جاتا ہے۔
سمانتھا پاور نے اپنے خطاب میں کہا کہ اکثر اوقات یہ خواتین ہی ہوتی ہیں جو حاجت مندوں کی نشان دہی کرتی ہیں، ایسی صورت میں جن خواتین کے پاس براہ راست وسائل ہوتے ہیں وہ زیادہ مؤثر طور پران کی مدد کرسکتی ہیں۔ لیکن جب انسانی امداد کی تقسیم اور وصول کنندگان کے ناموں کو طے کرنے کی بات ہوتی ہے توخواتین کو شامل نہیں کیا جاتا۔
مقامی تنظیموں بالخصوص خواتین کے اداروں کو آغاز سے ہی شامل کیا جانا چاہیے اور انسانی بنیادوں پر فراہم کرنے والے پروگراموں کی تشکیل اور عمل درآمد میں ان کا مرکزی کردار ہونا چاہیے۔
سمانتھا پاور نے مزید کہا کہ "قدرتی آفات کو برداشت کرنے اوران کے مطابق خود کو ڈھالنے کے سلسلے میں تربیت دیتے ہوئے بھی یہ بات صادق آتی ہے۔ جب ہم پوی دنیا میں مقامی آبادی کو موسمی بحرانوں سے مقابلہ کرنے کے لیے لوگوں کو تیار کرتے ہیں تو اس وقت بھی ہمیں سوچنا چاہیے کہ آفات کے اثرات کو کم کرنے کے لیے پروگراموں کی ڈیزائن کرنے اور ان پرعمل درآمد کی حکمتِ عملی کون ترتیب دے رہا ہے۔
سوچ و بچار کے بعد جو منصوبہ بندی کی جاتی ہے ، وہ سب پر عیاں ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر1998 میں ہنڈوارس اور نکاراگوا میں سمندری طوفان کے باعث 60 لاکھ گھر تباہ اور 10 ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد یو ایس ایڈ نے مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر پیشگی انتباہ، انخلا اور اطلاع دینے کے نظام پر کام کیا۔
اس کے علاوہ خراب موسم کا مقابلہ کرنے والے انفراسٹرکچر کی تعمیر کی تاکہ املاک کو محفوظ رکھا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ جب 2020 میں اس نوعیت کا اسی مقام پر سمندری طوفان آیا تو صرف 205 افراد ہلاک ہوئے۔
واضح طور پر اس کی وجہ یہ تھی کہ مقامی آبادی کو یہ ڈیزائن کرنا سکھایا گیا کہ کس طرح آفات سے مقابلہ کیا جاتا ہے۔
انہیں تجربات کی روشنی میں یو ایس ایڈ کی منتظم اعلی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ " ہمیں انسانی ہمدردی کی امداد کے طریقے تبدیل کرنا ہوں گے۔ ہمیں اس کام کے لیے مقامی آبادی اور تنظیموں کے ساتھ مکمل شراکت داری کرنا ہوگی۔ خواتین اور بچھڑے ہوئے طبقات کو شامل کرنا ہوگا جوحقیقی معنوں میں وہ پائیدارحل بتا سکیں جن سے وہ اور ان کی برادریاں خطرے میں پڑتی ہیں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**