ایک سال سے زیادہ عرصے سے ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات جاری ہیں جن کا مقصد ایران کے ایٹمی معاہدے پر باہمی عمل درآمد پر واپس آنا ہے۔ اس معاہدے کو "جوائنٹ کومپری ہینسو پلان آف ایکشن" کہا جاتا ہے۔
امریکہ کی سابق انتظامیہ 2018 میں اس معاہدے سے باہر نکل آئی تھی اور ایران اس وقت سے مسلسل اس معاہدے کے تحت عائد ذمّے داریوں سے رو گردانی کرتا آ رہا ہے، جس میں ممنوعہ سطح سے زیادہ یورینیم کی افزدگی اور یورینیم دھات بنانا شامل ہے۔ اس کے بارے میں جرمنی، برطانیہ اور فرانس کہہ چکے ہیں کہ "ان کا غیرفوجی استعمال نا قابلِ اعتبارہے۔" ایران اور پی فائیو پلس ون ممالک کے درمیان مذاکرات میں ایران اور امریکہ کی معاہدے میں واپسی کے سلسلے میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔ ایران کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی رابرٹ مالے نے حال ہی میں کہا تھا کہ غیر حل شدہ مسائل کے باعث جو دونوں ملکوں کے لیے اہم ہیں، معاہدے میں واپسی "یقینی نہیں ہے"۔
اسرائیل کے اپنے حالیہ دورے میں وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے ایک بار پھر کہا کہ امریکہ کی نظر میں ایران کے ایٹمی پروگرام کو واپس ڈبے میں بند کرنے کا بہترین راستہ جوہری معاہدے پر مکمل عمل درآمد ہے۔ وزیر خارجہ بلنکن نے کہا کہ معاہدہ میں واپسی ہو یا نہ ہو، ہمارے اصولی موقف میں کوئی لچک نہیں آسکتی کہ ایران کبھی بھی ایٹمی ہتھیار حاصل نہ کرنے پائے۔
وزیر خارجہ بلنکن نے یہ بھی کہا کہ علاقے میں ایران کی معاندانہ سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ " ایران جب بھی ہمارے یا ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کے لیے خطرات پیدا کرے گا، ہم اس کا مقابلہ کریں گے اور خطے میں اس کے جارحانہ رویّے کے انسداد کے لیے کام کرتے رہیں گے"۔
اسی مؤقف کو سامنے رکھتے ہوئے تیس مارچ کو امریکہ نے ایران کی بیلسٹک میزائل سے متعلق سرگرمیوں میں معاونت کے باعث پانچ افراد اور اداروں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ ان سرگرمیوں میں اربل، عراق میں ایران کا حالیہ میزائل حملہ اور ایران کی سرپرستی میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر میزائل حملے شامل ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ میں دہشت گردی اور مالی انٹیلی جنس کے شعبے کے نائب وزیر برائین ای نیلسن نے ایک بیان کے ذریعے ان پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا، "امریکہ مشترکہ جامع لائحہ عمل پرایران کی جانب سے دوبارہ مکمل عمل درآمد پر زور دینے کے ساتھ ان لوگوں کے خلاف کارروائی سے بھی گریز نہیں کرے گا جو ایران کے دور مار میزائل پروگرام کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم علاقے میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایران کو اس کے اقدامات پر جواب دہ ٹھہرائیں گے، جس میں اس کی جانب سے اپنے پڑوسی ملکوں کی خود مختاری کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں شامل ہیں۔"
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**