صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حیران کن تجویز نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے کہ امریکہ کو غزہ پر کنٹرول اور اس کی تعمیر نو کرنی چا ہیے۔ لیکن جس چیز پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا وہ 16 ماہ کی جنگ کے بعد غزہ کی موجودہ ہولناک صورتِ حال ہے جو سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے وحشیانہ دہشت گردانہ حملے کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔
جیسا کہ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولائن لیوِٹ توجہ دلاتی ہیں کہ اس سوال سے ہٹ کر نکتہ نظر یہ ہے کہ ’’ایک ہی تجربے کو بار بار دہراتے ہوئے مختلف نتائج کی توقع کرنا بیوقوفی ہے۔‘‘
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کہتی ہیں کہ ’’صدر ٹرمپ غیر معمولی سوچ رکھنے والے مفکر اور بصیرت والے رہنما ہیں جو ان مسائل کو حل کرتے ہیں جن کے بارے میں متعدد دوسرے افراد خاص طور پر اس شہر میں رہنے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ناقابلِ حل ہیں۔‘‘
ترجمان نے کہا کہ غزہ کے بارے میں صدر ٹرمپ کی تجویز ’’انسانی ہمدردی کے ساتھ‘‘ دی گئی تھی۔
مشرقِ وسطیٰ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے قومی سلامتی کے مشیر مائیکل والز کے ساتھ ایک پریس بریفنگ میں وہاں ہونے والی تباہی کو بیان کیا۔ وہ حال ہی میں غزہ کے دورے سے واپس آئے ہیں۔‘‘
پریس سیکریٹری کا مزید کہنا ہے کہ ’’یہاں ایسا 30 ہزار گولہ بارود موجود ہے جسے ابھی تک ناکارہ نہیں بنایا جا سکا۔ پھر ایسی عمارتیں ہیں جو کسی بھی وقت منہدم ہو سکتی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہاں کوئی بھی سہولت موجود نہیں ہے۔ پانی، بجلی، گیس، کچھ بھی نہیں ہے۔ خدا جانے وہاں کیسی کیسی بیماری پھیل رہی ہے۔ اس لیے صدرجب اسے صاف کرنے کی بات کرتے ہیں تو وہ اسے قابلِ رہائش بنانے کی بات کرتے ہیں۔ ‘‘
خصوصی ایلچی نے اس بات پر زور دیا کہ صدر کا منصوبہ طویل المیعاد ہے۔
’’صدر یہ سب کچھ درست طریقے سے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لیے میرے نزدیک فلسطینیوں کو یہ سمجھانا ناانصافی ہو گی کہ شاید وہ پانچ سال بعد واپس آ جائیں ۔ یہ بات مضحکہ خیز ہے۔ اس لیے ہم جو کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ ان لوگوں کو صاف شفاف انداز میں بتانا ضروری ہے۔‘‘
خصوصی ایلچی نے کہا کہ اہم مسئلہ جسے حل کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ غزہ کی تعمیر نو کے بعد فلسطینی عوام کہاں جائیں گے۔ قومی سلامتی کے مشیر والز نے کہا کہ امریکہ خطے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے اور اس سلسلے میں مدد کے لیے ان کا منتظر ہے۔
قومی سلامتی کے مشیر والز کہتے ہیں کہ ’’ہمیں اجتماعی طور پر اس مسئلے کو حل کرنا ہے۔ حماس نے جو جنگ شروع کی اس کے نتیجے میں سب کے دل ٹوٹ گئے۔ لیکن اب ہمیں اجتماعی طور پر کچھ مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا اور مجھے لگتا ہے کہ صدر نے بہت ہی عام فہم مؤقف اختیار کیا ہے۔‘‘
وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری لیویٹ نے کہاکہ’’ہمارے پاس وہی لوگ ہیں جو دہائیوں سے اس مسئلے کے ایک ہی حل پر زور دیتے آ رہے ہیں، اور صدر پر یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ امریکہ کو تعمیر نو کی اس کوشش میں شامل ہونے کی ضرورت ہے تاکہ تمام لوگوں کے لیے خطے میں استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔ ‘‘
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔