چین ایک عالمی طاقت ہے اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت جس کی فوج میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بات وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کیتھرین ہیریج کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں کہی ۔
انہوں نے کہا کہ’’ ہمیں چینیوں کے ساتھ تعلقات رکھنا ہوں گے۔ چاہے ہم ان کے ہر کام سے متفق ہوں یا نہ ہوں- ہم سمجھتے ہیں کہ کچھ معاملات میں ہم مقابلہ آرا ہیں۔ کچھ امور میں ہم براہ راست حریف ہیں۔ لیکن ابلاغ ہونا ضروری ہے کیوں کہ اس کی کمی تنازع کا باعث بن سکتی ہے۔‘‘
وزیر خارجہ روبیو نے کہا: ’’یہ بات کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایسی دنیا میں نہیں رہ سکتے جہاں ہم چین پر انحصار کریں۔ جیسے نایاب زمینی معدنیات کے لیے، ہماری سپلائی چین کے اہم اجزا کے لیے ہمارا انحصار چین پر نہیں۔ ہم ایسی دنیا میں نہیں رہ سکتے جس میں چین کو ہندبحرالکاہلی خطے پر غلبہ حاصل ہو جائے اورہمیں اس خطے میں تجارتی تعلقات رکھنے کی اجازت نہ ہو کیوں کہ وہ ان ممالک کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں اور وہ سب معاون ریاستیں بن جاتے ہیں۔‘‘
وزیر خارجہ روبیو نے زور دے کر کہا کہ ’’جاپانیوں کو معاون ریاست بننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ ہمارے قریبی اتحادی ہیں۔
جنوبی کوریا، فلپائن، آسٹریلیا اور ویتنام ’’ اس حوالے سے چین کے اثر و رسوخ والے علاقے میں معاون ریاستیں بننے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔‘‘
وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ ’’ہم بحرالکاہلی خطے کی ایک قوم ہیں اور ہم اپنی یہ حیثیت برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور وہاں اپنے تعلقات برقرار رکھیں گے۔اس لئے یہ ہمارے لیے ریڈ لائن ہے۔‘‘
وزیر خارجہ روبیو نے زور دیا کہ امریکہ تجارتی طریقوں میں غیر منصفانہ رویےسے بھی نمٹے گا۔ ’’ہم نے انہیں امریکہ میں کچھ بھی کرنے کی اجازت دی ہے۔
لیکن امریکی کمپنیاں عملی طور پر چین کے اندر کچھ نہیں کر سکتیں اور اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو اس لیے کہ وہ آپ کی دانشورانہ املاک کوچوری کرنا چاہتی ہیں اور پھر آپ کو کاروبار سے باہر کر کے آپ کی جگہ کسی چینی کمپنی کو دینے کی خواہاں ہیں۔‘‘
وزیر خارجہ روبیو نے کہا کہ باہمی تعاون ہونا چاہیے جیسا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بارہا زور دیا ہے۔ ’’ہمیں وہاں جو کچھ کرنے کی اجازت ہے وہی انہیں یہاں کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ وہ ہم سے ٹیرف کی مد میں جو کچھ بھی وصول کرتے ہیں وہی ہمیں ان سے وصول کرنا چاہیے۔‘‘
تائیوان کے حوالے سے امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ’’ہم تنازع نہیں چاہتے۔ لیکن ہم نے اپنی برسوں اور سالوں کی پالیسیوں اور تائیوان ریلیشنز ایکٹ کے تحت چھ یقین دہانیوں کے ذریعے بالکل واضح کر دیا ہے کہ ہم طاقت یا دھمکی یا جبر کے ذریعے تائیوان کی حیثیت میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کے خلاف ہیں اور ہماری یہی پالیسی برقرار ہے۔‘‘
امریکی پالیسی کو چین اور باقی دنیا کے لئے ایسا ہونا چاہیے جو سب سے پہلے امریکی قومی مفاد کوفروغ دے۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔