امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ہیلی کاپٹر حادثے کے ایک روز بعد ایک بیان میں ’’سرکاری تعزیت‘‘ کا اظہار کیا۔ اس حادثے میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان اور دیگر ایرانی حکام ہلاک ہوئے۔
مسٹر ملر نے یہ بھی کہا کہ ’’جب ایران میں نئے صدر کا انتخاب ہوتا ہے تو ہم ایرانی عوام اور انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے لیے ان کی جدوجہد کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔‘‘
ترجمان ملر نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ ایک غیر ملکی رہنما کی موت کے بعد امریکہ کی جانب سے سرکاری طور پر تعزیت کا اظہار ایک ’مناسب قدم‘ ہے جو اکثر امریکہ کی طرف سے اٹھایا جاتا ہے۔
تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ابراہیم رئیسی کی طرز قیادت کے بارے میں امریکہ کو کوئی شبہ نہیں ہے۔ ملر نے کہا کہ ’’ابراہیم رئیسی تقریباً چار دہائیوں تک ایرانی عوام پر روا جبر میں سفاکی سے شریک رہے۔ 1988 میں ہزاروں سیاسی قیدیوں کے ماورائے عدالت قتل میں کلیدی کردار ادا کرنے اور انسانی حقوق کی متعدد ہولناک خلاف ورزیوں میں بھی ملوث تھے۔ انسانی حقوق کی یہ خلاف ورزیاں خاص طور پر ایران میں لڑکیوں اور خواتین کے خلاف تھیں۔
میتھیو ملر کہتے ہیں کہ ’’ہم ہیلی کاپٹر کے حادثے میں کسی کی بھی موت دیکھنا نہیں چاہتے ۔ لیکن یہ حادثہ ایک جج اور ایران کے صدر کی حیثیت سے ان کے ریکارڈ کی حقیقت کو تبدیل نہیں کرتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے ہاتھوں پر خون کے دھبے ہیں۔ ‘‘
ملر نے کہا کہ ’’سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایران کے بارے میں ہمارا بنیادی نقطہ نظر تبدیل نہیں ہوا ہے اور نہ ہی بدلے گا۔ ہم ایران کے عوام کی حمایت جاری رکھیں گے۔ ان کے انسانی حقوق کے دفاع کے لیے، ایک آزاد معاشرے اور جمہوری شراکت کے لیے ان کی خواہشات کا دفاع کریں گے اور ہم ایرانی حکومت کی دہشت گردی کے لیے حمایت، ایسے خطرناک ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور جوہری پروگرام میں پیش رفت کا مقابلہ کرتے رہیں گے جو قابلِ اعتبار شہری مقاصد کے لیے نہیں ہیں۔‘‘
ترجمان ملر نے توجہ دلائی کہ امریکہ ایرانی حکومت کو زبانی ہی نہیں بلکہ اپنے عمل سے جواب دہ ٹھہراتا ہے۔ خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے والے اقدامات اور اپنے ہی لوگوں پر جبر کے لیے ایرانی حکومت اور ایرانی اداروں پر 500 سے زیادہ پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں۔
ترجمان ملر نے اعلان کیا کہ ایرانی عوام کے لیے ’’سرکاری پیغام یہ ہے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں جیسا کہ ہم پہلے بھی ان کے ساتھ کھڑے رہے ہیں اور ایرانی حکومت کو اس کی زیادتیوں کا ذمہ دار ٹھہرانے کی ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی آئے گی۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔