مارچ میں اقوامِ متحدہ کی ایک بڑے نقصان سے اس وقت بچت ہو گئی جب عوامی جمہوریہ چین، جو حقوقِ دانش کی خلاف ورزی کرنے والا بدنامِ زمانہ ملک ہے، اپنی اس کوشش میں ناکام رہا کہ وہ حقوقِ دانش کی عالمی تنظیم کی سربراہی کر سکے جو ان حقوق کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔
بدقسمتی سے اقوامِ متحدہ اکتوبر کے مہینے میں ایک اور سنگین معاملے سے بچنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ جنرل اسمبلی نے ایک مرتبہ پھر دنیا میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کرنے والوں کو ہیومن رائٹس کونسل میں داخلے کی اجازت دے دی۔ ان میں عوامی جمہوریہ چین، روس اور کیوبا شامل ہیں۔
اس پر انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کو حیرت ہوئی۔ ہیومن رائٹس واچ کے اقوامِ متحدہ کے ڈائریکٹر لیوس شاوانو نے کہا کہ انسانی حقوق کی مستقل خلاف ورزی کرنے والوں کو ہیومن رائٹس کونسل میں نشستیں نہیں دی جانی چاہئیں۔
اقوامِ متحدہ میں نگراں ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیلا نائر نے اسے انسانی حقوق کے لیے ایک سیاہ دن قرار دیا۔
انسانی حقوق سے متعلق اپنی تازہ ترین رپورٹ میں امریکی محکمۂ خارجہ نے عوامی جمہوریہ چین میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی ان گنت کارروائیوں کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سنکیانگ میں مسلمانوں کے اقلیتی گروہوں کے لوگوں کو وسیع پیمانے پر حراست میں لیا جانا بھی شامل ہے۔
روس کے معاملے میں محکمۂ خارجہ نے دوسری خلاف ورزیوں کے علاوہ ماورائے عدالت ہلاکتوں، من مانی گرفتاریوں اور اظہارِ رائے کی آزادیوں کی تفصیل بیان کی ہے۔
کیوبا میں، جو ایک پولیس اسٹیٹ ہے، حکومت کے زیرِ اثر سیکیورٹی فورسز نے انسانی حقوق اور جمہوریت کی وکالت کرنے والوں کو روزانہ کی بنیاد پر ڈرایا دھمکایا، جسمانی حملوں کا نشانہ بنایا اور کیوبا کے لوگوں کو اجتماع کی آزادی سے محروم رکھا۔
جنرل اسمبلی کی قراداد 60/251 میں، جس کے تحت ہیومن رائٹس کونسل کا وجود عمل میں آیا ہے، کونسل کے ارکان سے کہا گیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ میں اعلٰی ترین معیاروں کو سربلند رکھیں۔
اس سال عوامی جمہوریہ چین، روس، کیوبا اور گزشتہ برس وینزویلا کا انتخاب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کونسل جس مقصد کے لیے قائم کی گئی تھی، وہ اس کا محض سایہ بلکہ ایک مذاق ہے۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ 2018 میں امریکہ نے ہیومن رائٹس کونسل سے اس وجہ سے علیحدگی اختیار کی تھی کہ اسرائیل کے خلاف کونسل کا طرزِ عمل نہایت نمایاں تھا۔ پھر اس کا سبب رکنیت کے وہ ضابطے بھی تھے جن کے تحت دنیا میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کرنے والوں کو کونسل میں نشستیں حاصل ہو سکتی تھیں۔
انہوں نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ کونسل کو چھوڑنے سے پہلے امریکہ نے اقوامِ متحدہ کے رکن ملکوں پر زور دیا تھا کہ وہ کونسل میں اصلاح کے لیے فوری اقدام کریں اس سے پہلے کہ یہ ناممکن ہوجائے۔ لیکن ان کے بقول بدقسمتی سے ان اپیلوں پر توجہ نہیں دی گئی۔
وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ اس سال کے الیکشن کے بعد کونسل سے علیحدگی کے امریکی فیصلے اور آفاقی انسانی حقوق کے تحفظ اور ان کے فروغ کے لیے دوسرے اداروں اور مواقع کے استعمال کے بارے میں امریکی مؤقف کی مزید توثیق ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری وابستگیوں کے بارے میں انسانی حقوق سے متعلق اقوامِ متحدہ کے آفاقی اعلان اور ہماری کارگزاریوں میں واضح صراحت موجود ہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**